معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
واقعۂ حضرت ابنِ فارض حضرت ابنِ فارض رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں، ان کو وصال کے وقت جب جنّت دکھائی گئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا ؎ لَوْکَانَ مَنْزِلَتِیْ فِی الْحُبِّ عِنْدَ کُمْ مَاقَدْ رَأَیْتُ فَقَدْضَیَّعْتُ أیَّامِیْ اے اللہ! اگر میری محبت کا صلہ آپ کے نزدیک یہی جنّت ہے تو میں نے ایام اپنی زندگی کے ضایع کردیے۔ یعنی میں نے تو آپ کے لیے سب کچھ کیا تھا نہ کہ جنّت کے لیے، پس ایک تجلّیٔ خاص حق تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئی اور روح نکل گئی۔ یہ بڑے حوصلے کے لوگ ہوتے ہیں،چھوٹوں کا منہ نہیں ہے ؎ ناز را رُوئے بباید ہمچو ورد یعنی ناز کے لیے گلاب کا سا چہرہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک خاص طبقہ ہے اولیاء کا جن پر محبّت کا حال غالب ہوجاتا ہے، اور یہ حال راسخ ہوکر محبت کا مقام بن جاتا ہے۔ بنگر ایشاں راکہ مجنوں گشتہ اند ہمچو پروانہ بوصلش کشتہ اند دیکھو ان عشاق کوکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مجنوں ہوگئے ہیں اور پروانے کے مانند تجلّیاتِ قرب سے کشتہ ہورہے ہیں۔ وصل کا ترجمہ قرب سے اس لیے کیا ہے کہ ؎ وصل او را محال می گویند قربِ او را وصَال می گویند