معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میں اس کی ایک مثال سے توضیح کرتا ہوں اور یہ مثال ایسی ہے جس سے اکثر سابقہ بھی پڑتا رہتا ہے۔ کسی جگہ دو شخص گفتگو کررہے ہیں، ایک دوسرے کو پہچانتا نہیں ہے، ایک تیسرا شخص آتا ہے وہ دونوں میں تعارف کرادیتا ہے، اب یہ دونوں اس جان پہچان کے بعد یک بیک کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو سینے سے لگالیتے ہیں، اور ان دونوں میں جس درجے کا تعلق ہوتا ہے اسی درجۂ محبّت کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے، اس تعارف کرانے والے کو مُعَرِّ ف کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور بندوں میں جان پہچان کرانے کے لیے انبیاء علیہم السّلام مُعرِف بناکر بھیجے جاتے ہیں، پھر اُن کے سچے متبعین اور نائبین سے یہ ہی کام حق تعالیٰ لیتے ہیں۔طریق زہد اور طریقِ عشق طریقِ زہداور طریقِ عشق یہ دو طریق وصول الیٰ اللہ کے ہیں۔ طریقِ زہد میں بہت دیر لگتی ہے اور طریقِ عشق بہت جلد مقصود تک پہنچادیتا ہے۔ ہمارے حضرت مرشد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کو یوں سمجھایا کرتے تھے کہ ایک زمین ہے جس میں کھیتی کرنا ہے اور یہ زمین یوں تو غیر مزروعہ ہے، لیکن خاردار درختوں سے پُر ہے، اب اس زمین کو قابلِ زراعت بنانے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ ایک ایک خاردار درخت کو کاٹ کاٹ کر باہر پھینک دیں، اور اس طرح کرتے کرتے عرصۂ دراز کے بعد یہ زمین ایک نہ ایک دن صاف ہوکر قابلِ کاشت ہوجاوے گی، دوسری صورت یہ ہے کہ تمام درختوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادیں اور سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوجاویں ؎ عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت یعنی عشق وہ شعلہ ہے کہ جب روشن ہوجاتا ہے تو معشوق کے علاوہ تمام غیر ضروری تعلقات کو سوختہ کردیتا ہے۔