معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تماشائے مقتل کو آئے جو وہ تڑپنے کی لذّت سوا ہوگئیقصّۂ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی شیخ ابوالحسن خرقانی کی بیوی بڑی تند مزاج تھیں۔ شیخ کی زندگی کو اپنی بدخلقیوں سے تلخ کر رکھا تھا۔ ایک بار ایک مرید حضرت شیخ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے، شیخ جنگل تشریف لے جاچکے تھے، مرید نے دروازے پر آواز دی، شیخ کی اہلیہ نے کہا کہ کیوں آئے ہو؟ مرید نے بصد احترام حضرت شیخ کا نام لیا اور عرض کیا کہ زیارت کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ بیوی نے شیخ کا نام سنتے ہی سینکڑوںشکایتیں شیخ کی بیان کرکے کہا کہ احمق ہوئے ہو، کیوں عمر ضایع کرنے کے لیے اتنا طویل سفر کیا؟ مجھ سے زیادہ شیخ کی حقیقت سے کون آگاہ ہوسکتا ہے؟ مرید بہت آزردہ خاطر ہوا، اور روتا ہوا جنگل کی طرف سے گزرا، دیکھتا ہے کہ وہ مظہر عشق اور محبوبِ حق شیر پر بیٹھے ہوئے لکڑی کا ایک گٹھّا بھی شیر پر لادے ہوئے اور سانپ کا کوڑا ہاتھ میں لیے ہوئے تشریف لارہے ہیں۔ حضرت شیخ نے مرید کی افسردگی سے سمجھ لیا کہ یہ بے چارہ گھر میں کا تنگ کیا ہوا ہے۔آپ نے فرمایا: کچھ غم نہ کرو، حق تعالیٰ نے بیوی ہی کی بدمزاجی پر صبر سے مجھے یہ درجہ عطا فرمایا ہے ؎ گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن کے کشیدے شیرِ نر بیگارِ من ’’اگر بیوی کا بار میرا صبر نہ کھینچتا تو یہ شیرِِ نر کب میری بیگار اٹھاتا۔‘‘قصّۂ حضرت حاجی صاحب ہمارے دادا پیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جب غدر کے زمانے میں عرب ہجرت کرگئے، تو وہاں آپ کا کوئی اس وقت شناسا نہ تھا۔ چالیس روز تک فاقے ہوتے رہے،یہاں تک کہ فرض نماز کھڑے ہوکر ادا کرنے کی