معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اور آدم علیہ السلام سے اپنے رب کا قصور ہوگیا سو غلطی میں پڑگئے۔ تو اس کا جواب حضرت مولاناقاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا ﴿۱۱۵﴾؎ سو اُن سے غفلت ہوگئی اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی۔ اب یہ سوال ہوتا ہے کہ جب نسیان تھا تو اس کو عصیان سے تعبیر کیوں فرمایا؟ تو اس کا جواب حق تعالیٰ شانہٗ نے بہت عجیب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فیض سے میرے دل میں ڈالا ہے، جس کے اندر طریق اور سلوک سے متعلق ایک لذیذ اور نافع تقریر ہے اور حضرت مولاناقاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی تائیدِ مذکور سے اس کے بیان کی ہمت بھی ہوگئی، جب اکابر سلف کی تائید ہوجاتی ہے تو قلب کو اطمینان ہوجاتا ہے، تقریر یہ ہے: حضرت آدم کے نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمانے پر ایک عجیب تقریر نِسیانِ حضرت آدم علیہ السلام کو عصیان سے تعبیر فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ نے اپنی صفتِ ربوبیت کا ذکر فرمایا ہے :وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی’’اور آدم علیہ السّلام سے اپنے رب کا قصور ہوگیا‘‘یہاں رب فرماکر یہ بتادیا کہ نسیان کو عصیان کے عنوان سے تعبیر فرمانے میں حضرت آدم علیہ السّلام کی تربیت مقصود ہے۔چناں چہ عصیان میں جو شانِ عتاب ہے اس کے استحضار سے حضرت آدم علیہ السّلام کے قلب ِمبارک پر ایسی ندامت اور شکستگی طاری ہوئی کہ آپ اس حُزن اور ندامت کی راہ سے عبدیت کے اس عالی مرتبے پر فائز ہوگئے جس مرتبے پر کہ علمِ الٰہی میں آپ کوتاجِ خلافت عطا ہونا تجویز ہوا تھا، غلبۂ حزن اور ندامت سے آپ کی عبدیت کے بیج کو پختہ کرنا تھا، تاکہ عبدیتِ آدم علیہ السّلام خلافتِ الٰہیہ کا بار اٹھا سکے۔حضرت آدم کی گریہ و زاری کا اثر علی آزاد سید عبدالجلیل صاحب بلگرامی نے اپنی کتاب ’’سبحۃ المرجان‘‘ میں ------------------------------