معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کہیں مدّت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستورِ میخانہ تو تُو نے میری اس نعمتِ عظمیٰ اور آیتِ کبریٰ کا کیا حق ادا کیا؟ تو میں اس وقت حق تعالیٰ شانہٗ کے سامنے اس سوال سے شرمندہ ہوجاؤں گا اور یہی عرض کروں گا کہ اے اللہ! مجھ سے کچھ حق ادا نہ ہوا۔تقریراَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ وہ تقریراَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے روزِ میثاق عالَمِ ارواح سے ایک معاہدہ لیا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ ؎ اور جب کہ آپ کے ربّ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا، اورا ن سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، سب نے کہا: کیوں نہیں، ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ جب حق تعالیٰ نے ارواح سے یہ سوال فرمایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں تو اس سوال کے اندر ربوبیت کے انوار موجودتھے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک نور ہے، ان کا کلام نور ہے، اس سوال کے ساتھ ساتھ انوارِ ربوبیت ارواح پر پھیل گئے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کیا میں تمہارا اللہ نہیں ہوں؟ ربّ فرماکر اپنی ربوبیّت کی تجلّی دکھلادی۔اسی سوال میں ارواح نے اپنے رب کو دیکھا اور رب کی ربوبیت کو دیکھا اور دیکھ کر کہا: بَلیٰ،’’کیوں نہیں‘‘،یعنی بے شک آپ ہمارے رب ہیں۔ نور کی شان ظاہر لنفسہٖ اور مظہر لغیرہٖ ہے یعنی نور خود ظاہر ہوتا ہے اور ------------------------------