معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
فرماتے ہیں:وَفِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ؎ اور خود تمہاری ذات میں ہماری نشانیاں موجود ہیں،تو کیا تم کو سجھائی نہیں دیتا؟ اسی کا نام اپنی حقیقت کو سمجھ لینا ہے۔ جس کی ابتدا ایک ناپاک قطرۂ مَنی سے ہو وہ اپنے کو بڑا سمجھے،تف ہےاس بے غیرتی پر۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے معیّتِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار میں اپنی حقیقت سمجھ لی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور برتری پہچان لی، اپنا بندہ ہونا سمجھ گئے، اللہ کا معبود ہونا سمجھ گئے، اپنا سراپا محتاج ہونا اور اللہ تعالیٰ کا اپنا محسن اور پروردگار ہونا سمجھ گئے۔حق تعالیٰ کے احسانات کا استحضار محبت پیدا کرتا ہے اس معرفتِ کاملہ نے ان کو محبتِ الٰہیہ میں سرگرم کردیا، احسان سے آدمی عقلاً اور طبعاً دب جاتا ہے، بشرطیکہ عقلِ سلیم اور طبیعتِ سلیمہ ہو۔ ایک گلاس پانی کسی پیاسے کو کوئی پلادیتا ہےیا کسی مسکین کو ایک وقت کا کھانا شدّتِ بھوک میں کھلادیتا ہے یا کسی ننگے کو کپڑا پہنادیتا ہے تو اس محسن کی طرف سے اس پیاسے اور بھوکے پر کیا کیفیت گزرتی ہے، دنیا میں دن رات اس کے مشاہدات موجود ہیں۔ شدّتِ پیاس میں ایک گلاس پانی، شدّتِ بھوک میں ایک وقت کا کھانا انسان کو عمر بھر کے لیے دبادیتا ہے، اب اگر یہ غریب بھوکا پیاسا بادشاہ بھی ہوجائے۔ لیکن جب کبھی اپنے محسن کو دیکھے گا تو اس احسان کو یاد کرکے اس کے سامنے دَب جائے گا اور اس محسن کے شکر میں اس پر ایک عجیب احسانی کیفیت طاری ہوجائے گی ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندا نم چوں کند ہم موجود نہ تھے، نہ ہماری طرف سے کوئی درخواست گزری تھی، مگر حق تعالیٰ نے بے مانگے ہم کو وجودِ انسانی بخشا،اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ------------------------------