معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حاصل کی،یعنی علمِ نبوت بھی حاصل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ِمبارکہ سے انوارِ نبوّت کو بھی اپنے سینوں میں حاصل کیا۔ علمِ نبوت کے نقوش تو کتابوں میں سے لیے جاسکتے ہیں لیکن انوارِ نبوت کا محل کاغذ نہیں بن سکتا، نور کا محل تو مؤمن کا قلب ہی ہوسکتا ہے، پس علومِ نبوت تو کتابوں سے کتابوں میں منتقل ہوتے آرہے ہیں اور انوارِ نبوّت سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتے آرہے ہیں۔ اسی کو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ جو آگ کی خاصیّت وہ عشق کی خاصیّت اک خانہ بخانہ ہے اک سینہ بسینہ ہےحدیث پڑھنے اور پڑھانے کا لُطف کب ہے؟ ہمارے حضرتِ والا یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ حدیث پڑھنے کا لطف تو جب ہی آتا ہے جب شاگرد بھی صاحبِ نسبت ہو اور استاد بھی صاحبِ نسبت ہو۔ طلبا میں جو عملی کوتاہیاں زیادہ بڑھتی جارہی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ اس زمانے میں طلبا صرف علمِ نبوّت مدارس میں حاصل کرلیتے ہیں اور نورِ نبوت کو کسی صاحبِ نسبت بزرگ سے نہیں حاصل کرتے، پس کیوں نہ دین ادھورا رہے۔ دینِ کامل تو اسی وقت نصیب ہوسکتا ہے جب کہ اس کے دونوں ا جزا حاصل کیے جائیں، یعنی علمِ نبوت بھی حاصل کریں اور بعد میں کسی صاحبِ نور سے نورِ نبوّت بھی حاصل کریں۔ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ اکثر جج اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا (اکبر الٰہ آبادی) جج اکبر الٰہ آبادی مرحوم کے یہاں ہمارے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے