معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اور بےساختہ نکل گیا کہ مجذوب سالک کا چپڑاسی ہوتا ہے ،عوام بڑی غلط فہمی میں ہیں کہ مجذوبوں کو علمائے ارشاد سے افضل سمجھتے ہیں۔ مجاذیب اس راہ کے نابالغ بچے ہیں، بالغین کی صف میں ان کو گزر کہاں ہے۔ علماء، سالکین، ربّانیّین رجال اللہ ہیں، دین کا کام ان ہی بالغین سے لیا جاتا ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہمارے فرمایا کرتے تھے کہیارِ غالب علی الاحوال سے دین کا فائدہ ہوتا ہے مجذوب کی صحبت سے کچھ نفع نہیں ہوتا، بلکہ اندیشۂ ضرر ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ یارِ غالب جُو کہ تا غالب شوی یارِ مغلوباں مشو ہیں اے غوی مولانا فرماتے ہیں کہ اے شخص!’’تو یارِ غالب علی الاحوال تلاش کرتا کہ اس کے فیضِ صحبت سے تو بھی غالب ہوجاوے، یار مغلوب الاحوال کو مت تلاش کر اے گمراہ۔‘‘ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ بھی مغلوب الحال ہوگئے تھے۔بات یہ ہے کہ کثرتِ ذکر کے توسّط سے مذکور کے انوار ذاکر میں چلے آتے ہیں جس سے کم و بیش ہر شخص پر کیفیات طاری ہوتی ہیں خصوصاً جب کہ وہ ذکر عشق ناک بھی ہو تو بعض بندوں پر کوئی کیفیت ایسی قوت سے طاری ہوجاتی ہے جس کا تحمل اس کی قوتِ متحملہ سے باہر ہوتا ہے، پس غلبۂ حال میں کچھ بول جاتا ہے، در حقیقت اس وقت حضرت منصوررحمۃ اللہ علیہ انا الحق کے ناقل تھے قائل نہ تھے، کیوں کہ مغلوب الحال غلبۂ حالت میں ازہوش رفتہ ہوجاتا ہے، اور جب عقل نہیں تو مواخذہ نہیں، اُس وقت زبان تو اُن کی ہوتی ہے مگر بولنے والا کوئی اور ہوتا ہے۔حضرت منصوراور عُلمائے وقت اُس وقت کے علماء نے حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ پرکفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا