معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ھٰذَا الَّذِیْ تَرَکَ الْاَوْھَامَ حَائِرَۃً وَصَیَّرَ الْعَالِمَ الِنّحْرِیْرَ زِنْدِیْقًا بہت سے عاقل ایسے دیکھے گئے ہیں کہ ان کو رزق کی پریشانیوں نے تھکادیا ہے اور بہت سے ایسے جاہل دیکھے گئے ہیں کہ وہ رزقِ کثیر سے فارغ البال ہیں اور یہ تصرفاتِ عجیبہ ایسے ہیں کہ جس سے لوگوں کے اوہام حیرت زدہ ہیں اور بڑے بڑے اہلِ علم کو اس امرِ عجیب نے حیرتِ مذمومہ میں مبتلا کرکے زندیق بنادیا۔ مگر یہ وہ اہلِ علم ہیں جن کو کسی باخبر سے پالا نہ پڑا تھا اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا ؎ ’’رحمٰن کی شان کو کسی باخبر سے پوچھو۔‘‘ ہمارے حضرت مرشدی مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب ترجمہ فرمایا ہے، اس ترجمہ سے وجد آجاتا ہے، رحمٰن کی شان کو کسی باخبر سے پوچھو۔ اگر کسی باخبر سے ملاقات ہوجاتی تو وہ سمجھادیتا کہ میاں! رزق کا مدار علم یا جہل، عقل یابے وقوفی پر نہیں ہے،اس رحمٰن کی شان یہ بھی ہے: یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ؎ جس کو چاہتا ہے رزق زیادہ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔رزق میں تنگی اور فراخی کی حکمت رزق کی تنگی اور فراخی کا معاملہ مشیتِ الٰہی کے تابع ہے۔ دنیا ایک شِفاخانہ ہے، ہم سب کے سب اس شفاخانے کے مریض ہیں،حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہماری خالق، مالک اور حکیم ہے، علمِ الٰہی میں جس کے لیے جس قدر رزق مفید ہے اس کو اسی مقدار سے عطا فرماتے ہیں۔ شفاخانے میں مریض ہر قسم کے ہوتے ہیں، کسی کو حکیم دوا تلخ پلاتا ہے، اگر اس کو حلوہ کھلادے تو اس کا مادّۂ فاسدہ اس حلوے کو بھی متعفن کرکے ------------------------------