معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
معرفتِ الٰہیّہ کے آثار و لوازم جب بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اپنی ذلت اور بزرگی کا بصیرتِ قلب سے مشاہدہ کرلیتا ہے عظمتِ الٰہیہ سے ہر وقت دبا رہتا ہے، ایک عجیب شانِ فنائیت کا حال طاری ہوجاتا ہے، اور یہ حال راسخ ہوکر مقام بن جاتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق میرے مرشد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ:مقامِ فنائیت اخلاص سے بھی اونچا مقام ہے اخلاص سے بھی ایک اونچا مقام ہے اور وہ فنائیت کا مقام ہے، جس کی تشریح یہ ہے کہ اخلاص میں کسی قدر اپنے اوپر نگاہ ہوتی ہے، گویہ نظر، نظر مذموم نہیں ہوتی، کیوں کہ اپنے اعضاسے صدورِ اعمالِ حسنہ کو منجانب اللہ انعام سمجھتا ہے، لیکن ان اعضا کو اپنے احساس اور ادراک میں اپنے ساتھ منسوب کرتا ہے، اور یہ کوئی امر غیر مستحسن نہیں ہے۔ لیکن فنائیت کا درجہ اس سے بھی مافوق ہے، اس درجے میں اپنی ہستی اور صفاتِ ہستی سے نظر اٹھ جاتی ہے، جیسے چراغ آفتاب کے سامنے اپنے وجود کو کالعدم پاتا ہے، یعنی اپنے نور کو نورِ آفتاب کے سامنے اس درجہ مضمحِل ضعیف النور پاتا ہے کہ اپنے اوپر نظر کرنے سے شرماتا ہے ، پھر اس نورِ آفتابِ حقیقی کی کیا شان ہوگی ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر با شد ندانم چوں کند خاک آمیزجرعہ جب مجنوں کرتا ہے تو صاف اگر ہو تو میں نہیں جانتا کہ کیا سے کیا کردے۔ کیا سے کیا کردے پر اپنے ایک دوست مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کا ایک شعر یاد آ گیا، خوب فرمایا ہے ؎ نہ جانے کیا سے کیا ہوجائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا جو دستارِ فضیلت گم ہو دستارِ محبت میں