معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
آدم علیہ السّلام سے افضل سمجھ گیا، اور اس درجہ تکبّر بڑھا کہ حق تعالیٰ پر اعتراض شروع کردیا کہ آپ افضل کو مفضول کے لیے سجدہ کا حکم فرماتے ہیں۔ابلیس کے اندر محبّت کا مادّہ نہ تھا ابلیس میں محبت کا مادّہ نہ تھا، ورنہ اعتراض کے وبال میں نہ مبتلا ہوتا۔ ۳) مولانا فرماتے ہیں کہ اہل اللہ مصاحبِ خورشید ہیں،’’پاسبانِ آفتاب اند اولیاء ‘‘ اولیائے اللہ آفتابِ حق کے جلیس ہیں کَمَاقَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ؎ ’’میں اپنے ذاکر بندے کا جلیس ہوں۔‘‘اور اہل اللہ کے ظاہر و باطن دونوں ذاکر ہوتے ہیں،یعنی ان کے جوارح بھی ذاکرِ حق ہوتے ہیں اور ان کا قلب بھی ہر وقت حق تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوتاہے۔حضرت حاجی صاحبکا ارشاد حضرت حاجی صاحب مہاجر مکّی دادا پیر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار ہمارے مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ میاں اشرف علی!جب میں لوگوں سے باتیں کرتا ہوتا ہوں تو اس وقت بھی میرے قلب کی طرف استفاضے کے لیے متوجہ رہا کرو، یہ نہ سمجھنا کہ جب میں لوگوں سے باتیں کرتا ہوتا ہوں تو میرا دل بھی غافل ہوجاتا ہے، لوگوں سے گفتگو کے وقت بھی میرا دل حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوتا ہے۔اولیاء اللہ کا مقام اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے اجسام تو اس عالم میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر ان کی ارواحِ پاک عالمِ قدس سے متصل ہوتی ہیں،اور ا تصال سے دوسرے لوگ بے خبر ہوتے ہیں ؎ ------------------------------