معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
معاونین و محرکین کے لیے بھی دعا کرتا ہوں، مگر چوں کہ میں کُل سفیروں کو جانتا نہیں ہوں، نیز وہ ممکن ہے کہ بدلتے بھی رہیں، اُن کی تصدیق کا یہ انتظام کافی سمجھتا ہوں کہ جس سفیر کے پاس آپ کا دستخطی اعلان ہو اُس کو میرا بھی معتمد سمجھا جائے اور اس سے باضابطہ رسید لے کر عطیہ مدرسہ بیت العلوم کے لیے دے دیا جائے۔ واللہ الموفق، والسلام (مولانا) اشرف علی تھانوی عفی عنہ ۵؍شعبان ۱۳۵۲ھ مدرسہ بیت العلوم کے اہتمام اور انتظام کے لیے حضرت والا قصبہ سرائے میر اکثر تشریف لے جاتے تھے، جو پھولپور سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ کبھی اگر پورا دن وہاں ٹھہرنا ہوتا تو گھر سے آٹا، نمک، گھی لے جاتے اور کچھ بازار سے خرید کر علیحدہ پکوالیتے اور تناول فرماتے۔ اس امر پر اطرافِ اعظم گڑھ شاہد ہیں کہ حضرت والا نے مدرسے سے کبھی نمک تک نہیں چکھا اور نہ کبھی مدرسے سے اہتمام کی تنخواہ لی ہے۔ بدونِ معاوضہ محض رضائے حق کے لیے صبح پھولپور سے یکہ پر تلاوت کرتے ہوئے پانچ میل تشریف لے جاتے اور شام کو تلاوت کرتے ہوئے گھر واپس تشریف لے آتے۔خلافت کے متعلق چند غیبی بشارتیں حضرتِ والا کو خلافت یعنی اجازتِ بیعت عطا ہونے سے قبل چند غیبی بشارتیں ہوئی ہیں، جو درج ذیل ہیں: ۱) اجازت سے قبل حضرتِ والا نے حضرت شاہ فتح قلندر رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا کہ قبر سے باہر بادامی رنگ کا کاغذ لیے ہوئے بیٹھے ہیں، جب حضرت والا حاضر ہوئے تو حضرت والا کے ہاتھ میں حضرت شاہ فتح قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کاغذ کو دے دیا۔ اس خواب کے چند ہی دن بعد حضرتِ والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اسی طرح بادامی رنگ کے کاغذ پر اجازت نامہ موصول ہوا۔ حضرت والا نے