معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ان کو رفیق بنالیا جاوے، اسی کو بابا فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بے ر فیقے ہر کہ شد در راہِ عشق عمر بگزشت و نشد آگاہِ عِشق بے رفیق کے جس شخص نے راہِ عشق میں قدم رکھا تو عمر ختم ہوگئی اور عشق سے آگاہ نہ ہوا۔ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا میں جس رفاقت کا وعدہ ہے وہ دراصل موعود ہے آخرت کے لیے، لیکن وہ رفاقت اسی دنیا ہی کی رفاقت کا ثمرہ ہوگی، جس نے ان انعام والوں کو دنیا میں اپنا رفیق بنایا ہوگا اسی کو آخرت میں ان کی رفاقت نصیب ہوگی۔صحبتِ نیک کی ضرورت اور صحبتِ بد سے پرہیز اور اس کی تائید دوسرے نصوص سے بھی ہوتی ہے، قیامت کے دن کافروں کے تحسّر کا جو عنوان ہوگا وہ عنوان اس مضمون کی تائید کرتا ہے، کافر قیامت کے دن حسرت کرے گا: یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾؎ اے کاش کہ دنیا میں، میں نے رسول کے ساتھ رہ کر رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ اور حسرت سے یہ کہے گا: یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا ﴿۲۸﴾؎ ہائے افسوس کہ میں نے فلاں بُرے ساتھی کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ ان دونوں آیتوں کے تقابل سے بھی اس مضمون کی تائید ہوتی ہے کہ انعام والے بندوں کو اپنا رفیق بنالیا جائے ان کا راستہ اللہ تک پہنچا ہوا ہے۔ ان کے اتباع کی برکت سے تم بھی اللہ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور جو بُرے ساتھی ہیں، یعنی جو بجائے انعام پانے کے ------------------------------