معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
شیخِ کامِل کی محبّت عین محبّتِ حق ہے مولانا عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ چوں جُدا بینی ز حق ایں خواجہ را گم کنی ہم متن و ہم دیباچہ را دو مگو دو مدان و دو مخواں خواجہ را در خواجہ و خود محو داں خواجہ ہم در نورِ خواجہ آفریں فانی است و مردہ و میت دفیں ۱) حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنے شیخِ کامل فانی فی الحق کو حق سے جدا سمجھے گا تو تو اصل اور مقدمہ سب گم کر بیٹھے گا۔ مردانِ خدا خدا نباشند لیکن ز خدا جدا نباشند ۲) مولانا فرماتے ہیں کہ دو مت کہہ، دو مت جان، دو مت پڑھ، بلکہ غلام مبتدی کو اپنے آقایعنی مرشدِ کامِل میں محوجان کہ اوّلاً تخلق باخلاقِ شیخ ہوتا ہے۔ ۳) اور پھر یہ سمجھو کہ یہ خواجہ یعنی مرشدِ کامل بھی خالق ِخواجہ یعنی اپنے خالق کے نور اور تجلی میں فانی ہے اور میت ہے اور مدفون ہے۔ اس میں تاکید ہے کہ تخلّق با خلاقِ شیخ کے بعد تخلّق باخلاق اللہ کا مقام نصیب ہوجاتا ہے اورتخلّق با خلاق الرسول تخلّق باخلاق اللہ ہی کے مفہوم میں آ گیا۔ خدمتِ او خدمتِ حق کردن است روز دیدن دیدنِ آں روزن است فانی فی الحق کی خدمت کرنا عین خدمتِ حق ہے۔ آفتاب دیکھنااس دریچے کا دیکھ لینا