معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سلاطین بھی غبطہ کریں گے۔ اس لیے یہ ویرانی سبب زیادہ آبادی کا ہوگئی، اس سے تو ویرانی مذکورہ کا مضر نہ ہونا بلکہ انفع ہونا ثابت ہوا۔ پس خواہشاتِ نفسانیہ کے قصر کی حفاظت کوئی چیز نہیں، اس کو ویران کردے، کیوں کہ اے میرے امیر! خزانہ ویرانی ہی میں ملتا ہے، یعنی ان خواہشاتِ مذمومہ شہوت و غضب کو جب مجاہدے سے مغلوب کروگے تو نفس صفاتِ حمیدہ سے متصف ہوکر موردِتجلّیات بن جائے گا اور تعلق مع اللہ کی دولت باطن میں میسّر ہوجائے گی۔ تیسرے شعر میں مولانا فرماتے ہیں کہ کیا تو نہیں دیکھتا کہ بزمِ شراب میں مست اس وقت خوش ہوتا ہے جب وہ باعتبار حواسِ بدنیہ کے خراب اور ویران ہوجائے، یعنی اس کے حواس معطل ہوجاویں۔ مراد اس سے کامل نشہ ہے۔غلبۂ مستیٔ حق اور اس کا ثمرہ اسی طرح جب تیرے اندر مستیٔ حق ان ادراکات کے خاص افعال اور آثار پر کہ توجہ الیٰ غیر الحق و انہماک فی اللذّات ہے غالب ہوجاوے، جب فرحِ حقیقی حاصل ہوگی اور اس وقت بزبانِ حال یہ کہو گے ؎ بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ماست بادہ از ما مست شد نے ما ازو قالب از ما ہست شد نے ما ازو مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بادہ اپنی مستی میں ہماری مستی کا گداہے اور فلک اپنی گردش میں ہمارے ہوش کا قیدی ہے۔ اسی کو ہمارے خواجہ صاحب نے فرمایا ہے ؎ عجب کیا گر مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں تھا میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں تھا