معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
یہی کثرتِ ذکر اُن کی شدّتِ محبت پر گواہی دیتی ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے:مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ؎ جو شخص جس شے سے محبت رکھتا ہے اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ کثرتِ ذکر کے انوار سے اُن کی قوّتِ فکر یہ جو پہلے جامد تھی وہ اب متحرک اور نورانی ہوگئی، اور اسی نورانی فکر سے آسمان اور زمین کی خلقت میں غور کیا کرتے ہیں، اور ان مصنوعاتِ عجیبہ سے صانعِ حقیقی کے وجود پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ ہے اصلی فکر جس کو مولانا فرماتے ہیں ؎ فکرآں باشد کہ بکشاید رہے راہ آں باشد کہ پیش آید شہے ’’حقیقی فکر وہ ہے جو راستہ کھول دے، اور حقیقی راستہ وہ ہے جو اللہ تک پہنچادے۔‘‘ ذکر کے انوار نے ان کی فکر کو نورانی بنادیا ہے، یہاں تک کہ وہ نورِ حقیقی تک رسا ہوگئی، اور کہنے لگے:رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚسُبۡحٰنَکَ اے ہمارے پروردگار!یہ آسمان بے ستون اور آسمان میں چاند اور سورج اور اتنے بے شمار ستاروں کا جَڑ دینا اور تودۂ زمین کے اتنے بے شمار ذرّات کا اکٹھاکردیناآپ ہی کی قدرتِ کاملہ کی صنعت گری ہے۔عارف فکر سے قرب کے مراتب طے کرتا ہے خاموش بیٹھے ہیں مگر تاعرشِ شاہ سیر کررہے ہیں ؎ خامش اند و نعرۂ تکرار شاں می رودتا عرش و تخت یارشاں اولیاء اللہ جب ذکر سے تھک جاتے ہیں تو فکر سے قرب کے مراتب طے کرتے ہیں، خاموش بیٹھے مگر ان کے نعروں کا تکرار عرش تک یعنی تخت یارِ حقیقی تک پہنچتا ہے۔ تفکر سے اس قدر قرب ہوا کہ حق تعالیٰ سے مناجات یعنی سرگوشی کا سلسلہ شروع ------------------------------