معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ذکر کی پابندی ہی اصل مطلوب ہے اس راہ میں ذکر کی پابندی ہی اصل کامیابی ہے، خواہ ذوق و شوق حاصل ہو یا نہ ہو۔یہ کیفیات محمود تو ہیں مگر مطلوب نہیں ہیں، ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ جذبات ہی پہ اپنے نہ مجذوب شاد رہ جذبات ہیچ ہیں جو مرتّب عمل نہ ہو حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ قدم باید اندر طریقت نہ دم کہ اصلے ندارد دمے بے قدم طریق کے اندر قدم چاہیے، یعنی عمل درکار ہے، نہ کہ دم یعنی کیفیت، کیوں کہ وہ کیفیت جو عملی قدم کے ساتھ مقرون نہ ہوبے اصل ہے۔مقصود اعمال ہیں، نہ کہ کشف و کرامت وغیرہ اس راہ میں اعمالِ حسنہ کی توفیق اگر ہے تو سب کچھ حاصل ہے، خواہ کشف وکرامت، ذوق و شوق، وجد اور استغراق کچھ نہ حاصل ہو، کیوں کہ شریعت میں عمل مطلوب ہے۔ ترقی کا مداراعمال پر ہے، جو اختیاری ہیں، اور کیفیات چوں کہ غیر اختیاری ہیں اس لیے ان کو قرب اور بُعد سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ حق تعالیٰ اگر کسی کو عطا فرماویں تو انعاماتِ الٰہیہ ہیں، اُن پر شکر بجا لاوے۔ رونے کو جی چاہے رولے، ہنسنے کو جی چاہے ہنس لے، مگر ان کو مطلوب نہ سمجھے کہ ان کے نہ ہونے سے ملولِ خاطر ہو۔ بہت سے نادان سالکوں نے اس راہ میں جب ذوق و شوق میں کمی محسوس کی تو اپنے کو مردود سمجھ کر بالکل ہی بیٹھ رہے اور دنیا و آخرت دونوں کھو بیٹھے۔ کسی شیخِ مبصر کی راہ بری میں اگر کام کرتے تو وہ اس وقت میں سنبھال لیتا، اور کہتا کہ کام میں لگے رہو، کامیابی تو کام ہی سے ہوگی، کیفیات نہ رہیں تو نہ سہی ؎