معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو حضرت خضر علیہ السّلام کی شاگردی کا حکم نہیں ہوا تھا، بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اپنی مصلحت کے لیے از خود حضرت خضر علیہ السّلام کی مصاحبت کا اپنے اوپر التزام فرمالیا تھا۔ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: جن بزرگوں کے سپرد دین کی خدمت ہوتی ہےیہ قطب الارشاد اولیاء اللہ افضل ہیں ان اولیاء اللہ سے جن کے سپرد تکوینی خدمات کی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجاذیب کی صحبت سے کچھ نفع نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ تو وہی کریں گے جو ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے، اور قطب الارشاد حضرات سے دین کا نفع تو ظاہر ہی ہے، لیکن وہ مباح مقاصدِ دنیویہ کے لیے بھی نافع ہیں، اس طور سے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں،اور حدیث شریف میں ہے: لَایُرَ دُّالْقَضَاءُ اِلَّابِالدُّعَاءِیعنی قضائے الٰہی نافذ ہونے کے بعد بھی دعا کی برکت سے واپس ہوجاتی ہے۔ اس تقدیر کا نام تقدیرِ معلّق ہے۔ علمِ الٰہی میں اس قسم کی قضا مشروط ہوتی ہے کہ مثلاً فلاں بندہ جب دعا کرے گا تو یہ بلا فلاں بندے پر نازل نہ ہوگی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بزرگ کا واقعہ ارشاد فرمایا تھا کہ انہوں نے کسی بزرگ کے متعلق لوحِ محفوظ میں دیکھا کہ جہنمی لکھا ہوا ہے، پھر انہوں نے دعا کی، کچھ دن کے بعد پھر کشف ہوا، دیکھتے ہیں کہ اب لوحِ محفوظ میں ان ہی بزرگ کے متعلق جنتی لکھا ہوا ہے۔حضرت ابراہیم کا ادب اور ان کی عبدیتِ کاملہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عبدیت اور شانِ ادب کو حق تعالیٰ شانٗہ ارشاد فرماتے ہیں: الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾ وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾ ؎ ------------------------------