معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
جو بہت قابلِ عبرت ہے، فرمایا کہ بھائی! مجھے تو ازد حامِ خلقت سے خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں یہ استد راج نہ ہو۔ اللہ اکبر! اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ کرتے رہتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اپنے باخبر بندوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تو یہ بیان فرمائی ہے کہ اُن کی چال اور بندوں کی چال سے ممتاز ہوتی ہے، اور یہ تواضع تو ان کا طرزِ خاص اپنے اعمال میں ہے۔عبادالرَّحمٰن کی پہچان کی دوسری صفت اوردوسروں کے ساتھ ان کاطرزِ عمل یہ ہے کہ وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا اور ان سے جہالت والے لوگ جہالت کی بات چیت کرتے ہیں تو وہ رفعِ شر کی بات کرتے ہیں۔مطلب یہ کہ اپنے نفس کے لیے انتقامِ قولی یا فعلی نہیں لیتے، اور جو خشونت تادیب و اصلاح و سیاستِ شرعیہ یا اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو اس کی نفی مقصود نہیں۔ ظاہر ہے کہ جاہل کی بے تمیزی پر کس قدر انسان کو غصّہ آتا ہے، خصوصاً جب کہ مخاطبت کے ساتھ ہو، پس باخبر بندے جاہل کی چھیڑ چھاڑ میں اپنے کو نہیں الجھاتے ہیں، تاکہ حق تعالیٰ کی یاد کے لیے فراغِ قلب سے مشغولی کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت میسر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے باخبر بندے اپنے وقت کی بہت قدر کرتے ہیں، ہر لمحۂ زندگی کو امانتِ الٰہیہ سمجھتے ہیں، پھر اُن کی شدّتِ محبت اس امر پر ان کو مضطر رکھتی ہے کہ ؎ بفراغِ دل زمانے نظرے بماہ رُوئے بہ ازاں کہ چتر شاہی ہمہ روزہائے وہوئے یعنی ان کا مذاق یہ ہوتا ہے کہ محبوبِ حقیقی پر ایک بار نظر کرلینایعنی ذکرِ حق میں مشغول ہونا اس امر سے بہتر ہوتا ہے کہ سر پر شاہی چتر ہو اور ہمہ وقت ہائے وہویعنی شور و غل ہو۔خلوت مع اللہ کی ترغیب ایک حدیث سے یہ خلوت پسندی برائے ذکرِ دوست ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: