معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لیے جان دے دینا آسان ہوتا ہے۔ پس اس آیت میں حق تعالیٰ شانہٗ نے اوّلاً حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جانبازی کے تمام جہادی کارناموں کا ایک ایسا اجمال رکھ دیا ہے جو تمام تفصیل کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے، موقعِ جہاد میں ایسے بھی مواقع حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو پیش آئے ہیں کہ باپ صحابی ہے اور مقابلے میں بیٹا کافر ہے، اللہ کی محبّت کی سرگرمی کا مظاہرہ اس وقت قابلِ دید تھا، اس سرزمین کا ہر ذرّہ مست ہوگیا ہوگا کہ میرے اوپر اللہ کی محبّت میں یہ رجال اللہ یعنی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ کار زار میں آج اپنی اس محبّت کا حق ادا کررہے ہیں۔ساقیٔ اَلَسْتُ کا انعام جو اِن کو ساقیٔ اَلَسْتْ نے روز میثاقِ عالم ارواح میں پلادی تھی ؎ جُرعہ مے ریخت ساقیِ اَلَسْتْ برسرِ ایں خاک شد ہر ذرہ مست مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ساقیِ الست نے مئے معرفت اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا ایک جُرعہ اس خاک پر ڈال دیا تھا جس کے فیض سے اس خاک کا ہر ذرّہ مست ہوگیا،عالمِ ارواح سے ہم کو ان ہی کارنامہ ہائے محبت کے لیے الگ کیا گیا ہے، کیوں کہ عالمِ ارواح میں جانبازی اور سراندازی کے آلات نہ تھے، اس عالمِ پاک میں مادّیات کا گزر نہیں ہوسکتا ہے اور یہ آلات ہاتھ، پاؤں، سر، دل، دماغ سب مادّی ہیں اور حق تعالیٰ کو اپنے بندوں کا اپنی راہ میں گرم بازاریٔ عشق کا مظاہرہ دیکھنا منظور تھا، اس لیے عالمِ ارواح سے اس عالمِ ناسوت میں ایک مدّتِ معیّنہ کے لیے آلاتِ محبّت دے کر یعنی اجْسَام کا خلعت انعام فرماکر بھیج دیا ہے، جسم تو ہمارا خاکی ہے، لیکن رُوح عالمِ امر سے کٹ کر آئی ہے ؎ بشنو از نے چوں حکایت می کند کز جدائی ہا شکایت می کند یعنی بانسری کی آواز سنو کہ جس وقت وہ حکایت بیان کرتی ہے،یعنی جب وہ اپنی جدائی کا غم بیان کرتی ہے ؎