معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
دوسرے یہ معبودین کیسے مستحقِ عبادت ہوسکتے ہیں اور یہ معبودین مردہ اور بے جان ہیں (خواہ دواماً جیسے بت یا فی الحال جیسے جو مرچکے،اور یا فی الحال جو مریں گے مثلاً فرشتے اور جنّ اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام وغیر ہم) زندہ رہنے والے نہیں ہیں۔ پس خالق تو کیا ہوتے۔ اور ان معبودین کو اتنی بھی خبر نہیں کہ قیامت میں مُردے کب اٹھائے جائیں گے؟ (یعنی بعض کو علم نہیں اور بعض کو بالتعیین معلوم نہیں اور معبود کے لیے علم تو محیط چاہیے، خصوصاً بعث بعدالموت کا کہ اس پر جزا ہوگی عبادت اور عدم عبادت کی۔ تو اس کا علم تو معبود کے لیے بہت ہی مناسب ہوا، پس خدا کے برابر تو علم میں کیا ہوں گے۔ اس تقریر سے ثابت ہوا کہ) تمہارا معبود برحق ایک ہی ہے۔ تو اس ایضاحِ حق پر بھی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اسی لیے ان کو ڈر نہیں کہ توحید قبول کریں، معلوم ہوا کہ ان کے دل ہی ایسے ناقابل ہیں کہ معقول بات کے منکر ہورہے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ قبولِ حق سے تکبّر کرتے ہیں۔ ‘‘(بیان القرآن)ایک اشکال اور اس کا حل اب کوئی یہ اشکال پیش کرسکتا ہے کہ مشرکین اور کفار جب قبولِ حق سے تکبّر کرتے ہیں تو ان دشمنوں کے اوپر دنیا ہی میں ان کی زندگی کو حق تعالیٰ تلخ فرمادیتے اور تنگیٔ معیشت اور تکلیف دہ امراض میں مبتلا فرمادیتے، حالاں کہ حال اس کے برعکس ہے۔ چناں چہ کفار اکثر بڑے بڑے عیش و راحت کے سامان میں چین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تو اس اشکال کو ہمارے حضرت مرشد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب مثال سے حل فرمایا ہے۔ فرمایا کہ جج جب قتل کے ملزم کو پھانسی کی سزا سنادیتا ہے تو بطور مراحمِ خسروانہ سپاہیوں کو حکم کرتا ہے کہ اس ملزم کی جو خواہش ہو اس کو پوری کردو۔ خوب مٹھائیاں اور پوریاں کھلادو، بال بچوں کو دیکھنا چاہے تو دکھادو، تو کیا جج کی اس عنایت کو کوئی دوسرا شخص دیکھ کر اس راحت و عیش کی تمنا کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ پس یہی حال کفار و مشرکین کا ہے۔ حق تعالیٰ نے اپنے علم میں ان کے لیے چوں کہ ابدالآباد تک کے لیے جہنّم کی سزا کو تجویز کرلیا ہے اس لیے چند دن کے لیے متاعِ قلیل کو ان کے