معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
محبوب کی اطاعت اور اس کی یاد ہے ا ور یہ بھی محبّت کی ایک ذاتی صفت ہے، اسی کو صاحبِ قصیدۂ بردہ فرماتے ہیں ؎ اَیَحْسَبُ الصَّبُّ اَنَّ الْحُبَّ مُنْکَتِمٌ مَابَیْنَ مُنْسَجِمٍ مِّنْہُ وَمُضْطَرِمٍمحبّت کے دو گواہ (ترجمہ) کیا عاشق اس بات کا گمان کرتا ہے کہ اس کی محبّت پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ دراں حالیکہ اس عاشق کی آنکھیں محبوب کی یاد میں رونے والی ہیں اور قلب حرارتِ عشق سے مشتعل ہورہا ہے، ان دو گواہوں کی شہادت کے بعد اس کا عشق کب چھپ سکتا ہے۔حضراتِ صحابہ کی شدّتِ محبّت کا ایک رُخ حق سبحانہٗوتعالیٰ نے حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تعریف میں اس مقام پر محبّت کی ان تینوں صفتوں کو بیان فرمایا ہے۔ ایک تو یہ کہ میری محبت کی وجہ سے میرے منکرین سے اور میری شان میں گستاخی کرنے والوں سے یہ لوگ جاں مستانی اور جانبازی کا معاملہ کرنے والے ہیں ؎ حُسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا عشق اپنے مجرموں کو پابجو لاں لے چلا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری محبت میں جان دینے کے لیے اور جان لینے کے لیے میدانِ جہاد میں اس طرح باہمت کھڑے ہوتے ہیں کہ گویا یہ ایک عمارت ہیں جس کے اندر سیسہ پگھلاکر ڈال دیا گیا ہے۔ مولانا عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ برسرِ مقطوع اگر صد خندق است پیشِ دردِ او مزاحِ مطلق است