معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مجھے کراچی پہنچادو، میرا دل کراچی جانے کے لیے بار بار تقاضاکررہا ہے۔ غلام سرور صاحب نے چوں کہ یہ دولت قربِ شیخ ایک سال کے انتظار شدید کے بعد پائی تھی، اس لیے حضرت والا کی واپسی کے لیے ان کا اور اُن کے گھر والوں کا، نیز ان کے والد ماجد صاحب کا اجتماعی طور پر دل نہ چاہا کہ حضرتِ والا ہمارے گھر سے اتنی جلدی رخصت ہوجائیں،اس لیے ہر ایک نے انفراداً اور اجتماعاً پوری کوشش کی کہ حضرتِ والا کا قیام اُن کے گھر میں کچھ دن کو اور بڑھ جائے۔ حضرت والا کی شفقت نے ان حضرات کی مخلصانہ محبت کے پیش نظر اس درخواست کو قبول فرمالیا۔امتحانِ عشق عشق آمد لَا اُبَالِیْ فَاتَّقُوْا مؤرخہ۲؍جون ۱۹۶۳ء نویں محرم الحرام حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پیروں پر کچھ شبہ نجس چھینٹوں کا ہوا، غسل خانہ تشریف لے گئے کہ اس شبہ کو دور کرلوں، مشیتِ ایز دی کہ حضرت والا کا پیر مبارک پھسل گیا، جس کے سبب کولہے کی ہڈی پر نقصان آگیا۔ ایکسرے لیا گیا تو بائیں طرف کولہے میں نقصان کا اثر مشاہدہ ہوا۔ ڈاکٹروں نےحکم دیا کہ بہت معمولی اثر ہے، جو صرف دو ماہ مسلسل آرام سے خود بخود زائل ہوجائے گا۔(غلام سرور صاحب نے ان دنوں علاج تو حکیم قرشی شفاء الملک کا رکھا،لیکن مزید اطمینان کے لیے اسپیشلسٹ ہڈی ڈاکٹر سردار عالم صاحب اور اسپیشلسٹ قلب و بلڈپریشر ڈاکٹر عبد العزیز کا بھی معاینہ کرایا۔) حضرت والا اب بالکل صاحبِ فراش ہوگئے، کیوں کہ پاخانہ و پیشاب بستر پر کرانے کا حکم ہوگیا۔ چوٹ کی جگہ پر حرکت سے دردِ شدید کا احساس ہوتا، حتیٰ کہ اکثر اوقات شدتِ درد سے حضرت والا آہ فرماتے۔ احقر ان دنوں کراچی میں تھا، لیکن بار بار غلام سرور صاحب سے دریافت فرماتے کہ’’حکیم اختر نہیں آئے؟‘‘میں حاضری کے لیے خط لکھ چکا تھا، اس لیے تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفے سے بار بار دریافت فرماتے کہ ’’حکیم جی آگئے؟‘‘ پھر احقر کو غلام سرور صاحب نے تار دیا۔ چناں چہ ۶؍ جون کو احقر