معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
یا ابن عمر! اے چودہ پیوند لگانے والے باپ کے بیٹے! باپ کی پاکیزہ زندگی کے نقشِ قدم کو مت بھولنا،تمہارا ایک زمانہ آنے والا ہےیعنی جب باپ تمہارا خلیفۃ المؤمنین ہوگا اور طرح طرح کے ہدایا و تحائف آئیں گےاس وقت مزاجِ عبدیت سنبھالنا مشکل ہوگا، پس ابھی سے میری نصیحت سن لو اور اس کو یاد رکھو! کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ دنیا میں تم ایسے رہنا جیسے کہ کوئی مسافر ہوتا ہے۔ مسافر کی شان کیا ہوتی ہے، ’’سبکسار مردم سبکتر روند‘‘، ہلکا پھلکا مسافر خوب سفر کرتا ہے۔ سفر میں عاقل آدمی بہت مختصر اسباب رکھتا ہے، حتیٰ کہ سلاطین بھی جب سفر کرتے ہیں تو شاہی محل اور شاہی محل کے تمام اسبابِ راحت و آرایش کو چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا میں ہر بندہ آخرت کا مسافر ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو۔ ہر ایک ہر سانس میں اس راستے کو قطع کرتے کرتے ایک دن موت کے پُل سے گزر کر دارِ آخرت میں قدم رکھ دیتا ہے، اور وہی اس کا اصلی وطن ہوگا، اور وطن کی راحت موقوف ہے پردیس کی کمائی پر۔ ہر انسان اپنے عقائد اور اعمال کے مطابق آخرت میں دو صفوں کے اندر تقسیم کردیا جائے گا: اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ۱۳﴾ وَ اِنَّ الۡفُجَّارَ لَفِیۡ جَحِیۡمٍ ﴿ۚۖ۱۴﴾ ؎ ’’نیکوں کی صف جنت میں اور بُروں کی صف جہنّم میں ٹھکانا پالے گی۔‘‘طریقِ عشق اسی کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ میں طریقِ عشق کی بھی تعلیم ہے، کیوں کہ محبّت تمام تکلّفات اور آرایش کو چھڑا دیتی ہے، اور مقامِ عشق ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جو محض ذاتِ حق سے محبّت رکھتے ہیں اور بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ میاں خوش ہوجائیں۔ ------------------------------