معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہے۔ کم از کم پانچ سو مرتبہ اگر یہ ورد لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھ لیا جاوے تو گناہوں سے بچنے کی ہمت اور نیک اعمال کرنے کی قوت حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوجاتی ہے۔ اگر اتنا نہ ہوسکے تو ستّر ہی بار پڑھ لیا جاوے۔ عبادت کرتے کرتے اگر اپنے اوپر خود بینی والی نگاہ پڑنے لگے تو فوراً اس وِرد کو اس کے معانی کا خیال کرکے پڑھنے لگے، اس وِرد کی برکت سے شیطانی قدم تکبّر اور خود بینی کا اکھڑ جاتا ہے۔ گناہوں سے پھرنے کی طاقت کی درخواست کو مقدم فرمایا ہے، کیوں کہ ہر گناہ سببِ ناراضگیٔ حق ہے اور نیکی کی توفیق فضل و رحمتِ حق ہے، پس جلبِ رحمتِ حق کے لیے دفعِ ناراضگیٔ حق کا تقدم ضروری ہے۔ جو شخص اصلاحِ نفس سے عاجز ہورہا ہو اس کے لیے اس وِرد کی کثرت ازبس نافع ہے۔ حضرت میاں چاند شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو اکثر یہی وِرد تعلیم فرمایا کرتے تھے۔ اس راہ میں فنائیت اور عاجزی ہی سے کام چلتا ہے۔ بڑے بڑے عابدین ناز اور تکبّر کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ، ان کو معرفت نہ تھی، اگر اللہ کی عظمت کو پہچانتے تو ہر گز کبھی اپنے اعمالِ حسنہ اور طاعات پر نظر نہ جاتی۔ اللہ والے اگر کبھی اپنے اندر وسوسہ بھی کبر کا محسوس کرلیتے ہیں تو فوراً نفس کا مزاج درست کردیتے ہیں۔واقعۂ حضرت عمر ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک مشک پانی سے بھری ہوئی اپنی پشت پر رکھ کر کسی غریب مسلمان کے دروازے پر آواز دی کہ دروازہ کھولو،بہشتی پانی بھرے گا، لوگوں نے عرض کیا:یا امیرالمؤمنین!یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ آپ خلیفۃ المسلمین ہیں، آپ کو سقّہ بننے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ارشاد فرمایا کہ میرے نفس میں خیال گزرا کہ عمر کے پاس قیصر وکسریٰ کے وفود آتے ہیں، پس میں نے اپنے نفس کا یہ علاج کیا ہے، تاکہ نفس کا مزاج درست ہوجائے۔ اللہ اکبر! عارفین کی یہی شان ہوتی ہے۔ عارفین تو عبادت کرکے ڈرتے رہتے