معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
زِیرکی کے پلان سے وہ ذاتِ پاک پوری طرح باخبر ہے، جب تک چاہے گی تیری ستاری اور عیب پوشی کرے گی، اور جب چاہے گی تجھ کو رسوا کردے گی ؎ حِلمِ حق با تو مواسا ہاکند چوں تو از حد بگزری رسوا کند مولانا فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ‘ کا حِلم و کرم بندوں کے عیوب کی ستاری کرتا رہتا ہے، لیکن جب بندہ حد سے گزر جاتا ہے تو اس کو اپنی صفتِ قہاریت سے مبتلائے قہر فرماکر رسوا فرمادیتے ہیں۔ الغرض عارفین کا رہائے دنیا سے اس لیے کاہل ہوتے ہیں کہ ان کے مقاصد توکّل کی برکت سے بدون اختیارِ اسباب پورے ہوجاتے ہیں، جس کی تفصیلی تقریر بیان ہوچکی۔ اب آگے مولانا عارفین کی ایک شان اور بیان فرماتے ہیں، جس سے ان کی عالی ہمتی اور چستیٔ محمود کا ثبوت ہوتا ہے۔امورِآخرت میں عارفین کی عالی ہمتی کارِ دنیا را ز کل کاہل تراند در رہِ عقبیٰ ز مہ گو می برند مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عارفین دنیا کے کاموں میں تو سب سے زیادہ کاہل ہوتے ہیں، لیکن آخرت کے کاموں میں چاند سے بھی زیادہ تیز رفتاری میں سبقت لے جاتے ہیں۔ جس کو مولانا نے دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا ہے ؎ عقل ابدالاں چوپّرِ جبرئیل می پرد تاظلِ سدرہ میل میل یعنی اولیائے اللہ کی عقل مثل پَر جبرائیل کے ہے، جو کہ سایۂ سدرۃ المنتہیٰ تک درجہ بدرجہ اڑتی ہے ؎