معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہیں کہ نہ معلوم کوئی گستاخی نہ ہوگئی ہو،سیدالعابدین سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ کی عظمت کے شایانِ شان آپ کی غلامی کا ہم سے حق ادا نہ ہوسکا، تو پھر کس کا منہ ہے جو دعویٰ کرے ادائیگیٔ حقِ عبدیت کا؟ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مغفرت بدون رحمتِ حق کے محض اعمال سے نہ ہوگی۔کوئی شخص محض اعمال سے نہ بخشا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ کوئی شخص محض اپنے اعمال سے نہ بخشا جائے گا۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!کیا آپ بھی نہیں؟ فرمایا:’’ہاں! میں بھی نہیں بخشا جاؤں گا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لیں۔‘‘ ہمارے اعمال درحقیقت جزا کے قابل نہیں ہیں، کیوں کہ ہم ناقص ہیں، ہماری ذات میں احتیاج اور ضعف داخل ہے، ہمارے اعضا سے جو اعمال صادر ہوتے ہیں ان میں نقصان ہوتا ہے۔اعمال پر جزا دراصل عطا ہے قرآنِ پاک میں جہاں جہاں بندوں کے اعمال پر جزا کا وعدہ آیا ہےتو وہ درحقیقت ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال کی جزا نہیں ہوگی، بلکہ وہ حق تعالیٰ کی عطا ہوگی۔ اس حقیقت کو حق تعالیٰ شانٗہ نے تصریحاً ارشاد بھی فرمادیا ہے:جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا (ان نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے رب کی طرف سے) یعنی تمہارے اعمال تو جزا کے قابل نہ تھے، لیکن چوں کہ ان ناقص اعمال کا تعلق تمہارے اعضا سے تھا اس وجہ سے ہم نے غایتِ کرم سے حوصلہ افزائی کے طور پر ان انعامات کا نام جزا رکھ دیا، تاکہ تمہارا دل خوش ہوجائے، ورنہ یہ جزا درحقیقت ہماری طرف سے عطا ہی ہوگی۔