معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اللہ والوں کی باتوں میں اثر ہونے کی وجہ اللہ والو ں کی باتوں میں اثر ہونے کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں دیکھ کر کہتے ہیں، کیوں کہ خود راستہ قطع کرچکے ہیں، اس لیے ان کے یقین کا اثراُن کی گفتگو میں ہوتا ہے، غیر محقق اور محقق پیر میں بڑا فرق ہوتا ہے، اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص تو خود امریکا ہو آنے کے بعد وہاں کے حالات اور اس کے راستوں سے کسی کو آگاہ کرے اور دوسرا شخص نقشے اور جغرافیے کی مددسے کسی کو راستہ بتاتا ہے، تو پہلے شخص کے لب و لہجے سے اور اس کی گفتگو سے مخاطب کے دل میں جو ایک اطمینانی کیفیت محسوس ہوگی وہ دوسرے شخص کی لمبی چوڑی تحقیقات اور طویل تقریر سے ہر گز نہ حاصل ہوگی۔ اس شخص کے لب و لہجے اوراندازِ گفتگو سے مخاطب تاڑ لے گا کہ یہ بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔ جب تک میں نے حج نہیں کیا تھا اُس سے پہلے کتاب الحج طالب علموں کو پڑھائی بھی لیکن نہ استاد سمجھے نہ شاگرد، بس عبارت کا ترجمہ کرادیا جاتا ہے۔ اللہ والوں کی باتوں میں اثر ہونے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنا دکھ بیان کرتے ہیں یعنی جو کچھ محبّتِ الٰہیہ کے مضامین بیان کرتے ہیں وہ ان پر خود بیت چکے ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ دُکھے ہوئے دل سے جو بات نکلتی ہے وہ دوسروں کو بغیر رُلائے ہوئے نہیں رہ سکتی ؎ کزنیستاں تامرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند عام می خوانند ہردم نام پاک ایں اثر نہ کندچوں نبود عشقناک ۱) مولانا فرماتے ہیں کہ جب سے میری رُوح کو عالمِ امر سے جدا فرماکر عالمِ ناسوت میں بھیجا ہے میرے دردِ فراق کے نالوں سے مرد و زن سب نالاں ہیں۔ ۲) عام لوگ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا نامِ پاک رٹتے ہیں لیکن اس کا کا مل اثر اس لیے مرتّب نہیں ہوتا ہے کہ ان کی زبان سے وہ نام عشق ناک ہوکر نہیں نکلتا ہے۔