معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
طالب کا التزامِ ذکر پیر کے نور کا جاذب ہوتا ہے کثرتِ ذکر سے طالب کے اندر جو انوار پیدا ہوتے ہیں وہ شیخ کے انوارِ فہم و معرفت کو جذب کرلیتے ہیں،یعنی جذبِ نور کی صلاحیت التزامِ ذکر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ناریاں مرناریاں را جاذب اند نوریاں مرنوریاں را طالب اند مولانا فرماتے ہیں کہ جب تم کثرتِ ذکر اللہ کے پابند رہو گے تو حق تعالیٰ کے انوار ذکر کے واسطے سے تمہارے اندر آکر تمہیں نورانی بنادیں گے اور جب تم نورانی ہوجاؤ گے تو شیخِ نورانی کے انوار کو تمہارے اندر جذب کرلیں گے۔ اس مضمون کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے،حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے اندر مجالست کا حکم فرمایا جارہا ہے جو اپنے رب کو صبح و شام یاد کرنے والے ہیں۔صحبتِ شیخ کی ضرورت وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ میں تو صحبت کی ضرورت ارشادفرمادی کہ اے اہلِ عرب ! تم عربی زبان کے ماہر تو ہو لیکن نِری زبان دانی سے کام نہیں چلے گا، میرے رسول کی صحبت میں رہ کر تزکیۂ نفس، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت کے بغیر دین نہیں ملے گا ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا وَ اصۡبِرۡ کے عنوان سے صحبت کی حد درجہ ضرورت ثابت ہوگئی، کیوں کہ صبر نام ہے رضائے حق کے لیے اپنے کو ایسے امر پر مامور کردینا جو طبعاً نا مرغوب اور گراں ہو۔