معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
درخت کی پتّی کے خواص پیدا ہوجائیں۔ سائنس کا کوئی دعویٰ ہو تو پیش کرو۔ سائنس کو تو بلاوجہ لوگ بدنام کرتے ہیں۔ سائنس بے چاری تو گونگی، بہری، اندھی ہے، مگر اس کے وکلایعنی اہلِ سائنس اس کی طرف سے بول رہے ہیں، مدعی سست گواہ چست کا معاملہ ہے۔ اچھا ہم سائنس کے وکلا ہی سے خطاب کرتے ہیں کہ یہی لوگ اس کی طرف سے مکّھی کا ایک پَر بنا لائیں یا کسی درخت کی ایک پتّی بنا لائیں مگر ظاہری اور باطنی خواص میں سَرمُوفرق نہ ہو۔ لوہا، تانبا، آگ، پانی، ہوا۔ جن اجزا سے سائنس والے کام لیتے ہیں کیا ان اجزا کو سائنس دانوں نے پیدا کیا ہے؟ اور جس عقل اور فہم سے اشیاء کے خواص کی تحقیقات کرتے ہیں وہ عقل اور فہم ان کی ذاتی ملکیت ہے یا وہ کسی کی عطا ہے؟یہ بَرّی جہازوں کو جس کرۂ ہوا پر لے کر اڑتے ہیں اس کرۂ ہوا کو کس نے پیدا کیا ہے؟ بحری جہازوں سے جس سمندر پر مسافت قطع کرتے ہیں وہ سمندر کس ذاتِ پاک کا پیدا کیا ہوا ہے؟ اگر نعوذ باللہ! سائنس خالق ہے تو خالق کا اپنی مخلوق کے ظاہر اور باطن سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے، پھر کیا بات ہے کہ رات دن اشیاء کے خواص کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔یہ نت نئی تحقیقات خود بے خبری کی دلیل ہے۔ پھر ان کی تحقیقات میں اکثر غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ آج سے چند دن پہلے جس تحقیق کا اعلان کرتے ہیں چند دن بعد اُسی تحقیق کے خلاف اعلان کرتے ہیں اور اوّل تحقیق سے رجوع کرکے اپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں اور خالق کی شان کیا ہوتی ہے، ارشاد فرماتے ہیں اَلَایَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ؕ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ؎ بھلا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، وہ باریک بین پورا باخبر ہے۔ خالقِ حقیقی کے کلمات کبھی تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں وَلَنْ تَجِدَلِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا؎اور آپ خدا کے دستور میں ردّو بدل نہ پائیں گے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب اہلِ سائنس اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں تو ان کے تمام وہ ------------------------------