معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کو اختیار کرتے ہیں وہ بھی عارف باللہ ہوجاتے ہیں اور علائقِ فانیہ سے ان کی روحوں کو خلاصی مل جاتی ہے۔عارفین کا مرتبۂ روح میں چاہِ دنیا سے خارج ہونا کیوں کہ عارفین مرتبۂ رُوح میں علائقِ فانیہ سے آزاد ہوچکے ہیں اور مرتبۂ جسم میں یہ عام انسانوں کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں، اگر ان کی رُوح دنیا کے قید خانے سے آزاد نہ ہوتی تو دوسرے قیدیوں کو کس طرح آزاد کرسکتے تھے؟ ایک قیدی دوسرے قیدی کو کب آزاد کرسکتا ہے ؎ کے دہد زندانئے در اقتناص مردِ زندا نئے دیگر را خلاص یعنی ایک زندانی جو خود شکا ر کردگی میں ہے دوسرے زندانی شخص کو کب رہائی دے سکتا ہے؟ جز مگر نادر یکے فردا نئے تن بزنداں رُوحِ او کیوانئے یعنی بجز نادر کسی یکتا مردِ کامل کے جس کا تن تو زنداں میں ہو، یعنی دنیا میں ہو مگر رُوحِ عالی عالمِ غیب سے تعلق رکھتی ہو، کیوں کہ جو شخص خود کنویں کے اندر ہو وہ دوسرے کو کنویں سے نہیں نکال سکتا ، اسی طرح جو شخص خود تعلقات ِماسوی اللہ میں آلودہ ہو اس کی تعلیم و تربیت اور صحبت میں عادتاًیہ اثر نہیں ہوتا کہ دوسرے کے یہ تعلقات قطع ہوجائیں۔ اگر کوئی یہ اشکال کرے کہ عارف کو بھی تو ہم کنویں کے اندر یعنی چاہِ دنیا میں دیکھتے ہیں، پس جب یہ خود چاہ میں ہے تو دوسروں کو کس طرح نکالے گا؟ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اشکال کو حل فرمایا ہے، مولانا فرماتے ہیں کہ عارف باعتبار اپنے مرتبۂ رُوح کے اس چاہِ دنیا سے خارج ہے اور باعتبار مرتبۂجسم کے اس چاہِ دنیا میں موجود ہے اور اس کا یہی جسم دوسرے کے لیے آلۂ اخراج ہے، جس طرح کہ ڈول کنویں کے اندر ہوتا ہے۔ مگر اس میں محبوس اور مقید نہیں ہوتا، بلکہ اگر کسی محبوس کو نکالتے ہیں تو اس کا ذریعہ یہی ڈول ہوتا ہے، پس اسی طرح عارفین اپنے جسم سے یہاں ہیں،