معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میں پہنچ کر خود بھی علت ہوگیا،’’ہرچہ گیرد علتے علت شود‘‘اس لیے وہ علم ان کے لیے زہر بن گیا ؎ علم چوں بر تن زنی مارے بود علم چو بر دل زنی یارے بود حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم کو اگر تن پروری میں صَرف کیا جاوے تو وہ علم سانپ ہوجاتا ہے، اور علم کو جب دل میں اتارا جاتا ہے وہ بہترین یار ہوتا ہے۔علم کا اصلی مقام اس سے معلوم ہوا کہ علم کا اصلی مقام قلب ہے ،یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے قرآن میں علمائے یہود کو بوجھ لدے ہوئے گدھوں سے تشبیہ دی ہے، کیوں کہ اُن کے دلوں پر اُن کے علوم کا اثر نہ تھا، جس کی دلیل یہ ہے کہ علم باللہ کے لیے خشیتِ الٰہیہ لازم ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ وہی بندے اللہ سے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں۔‘‘ آیت سے واضح ہے کہ خشیتِ الٰہیہ علمِ حقیقی کی ایک لازمی صفت ہے، اگر خشیت نہیں ہے تو وہ عالم اللہ کے نزدیک عالم کے مرتبےمیں نہیں ہے ؎ صد ہزاراں فضل دارد از عُلوم جانِ خود رامی نداندایں ظُلُوم مولانا فرماتے ہیں کہ یہ شخص سو ہزار فنونِ علمیہ سے فضیلت رکھتا ہے، لیکن یہ ظالم اپنی جان سے غافل ہے، یعنی اپنے علوم کو شکم پروری اور تن آرائی کا ذریعہ بنا رکھا تھا، اس لیے علوم کے انوار اور معارف اس کو نصیب نہ ہوئے ؎ اے بسا عالم ز دانش بے نصیب حافظِ علم است او کہ نے حسیب ------------------------------