معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عاقل کی تعریف ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اہلِ دنیا اہلِ دین کوبے وقوف سمجھتے ہیں۔میں ان سے سوال کرتا ہوں اچھا عقل کی تعریف کیا ہے؟ عقل کہتے کس کو ہیں؟ اہلِ دنیا بھی عاقل اسی کو کہتے ہیں جو عاقبت اندیش اور انجام بیں ہو، کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نہایت بے وقوف ہے کہ اپنے کام کے انجام پر نگاہ نہیں رکھتا۔ پس جب عقل کی یہ تعریف یعنی انجام بینی سب کو تسلیم ہے، تو اب خود فیصلہ کرلیں کہ انجام پر کس کی نظر زیادہ ہے؟ اہلِ دین تو مرنے کے بعد کے انجام پر بھی نظر رکھتے ہیں، پس ان کا سب سے زیادہ عاقل ہونا عقلاً بھی ثابت ہوگیا کہ مادّی ترقیّات یعنی سائنس کی تمام تر ایجادات کا تعلق صرف جسمانی آرایش اور راحت سے ہے، اگر ان نعمتوں پر شکر کرتے کہ خدا وند تعالیٰ نے کیسی کیسی راحتوں کا انتظام ہمارے لیے فرمادیا ہے تو یہی دنیا دین بن جاتی۔ آخر ان ایجادات اور مصنوعات کے لیے ہمارے اندر عقل کہاں سے آئی ہے؟ ایک دن وہ تھا کہ ہم ماں کے شکم میں ایک بے جان نجس پانی کی شکل میں تھے، پھر اس خلّاقِ عالم نے کس طرح اس پانی کو لوتھڑا بنایا، پھر اس میں ہڈیاں بنائیں،اور پھر اس پر گوشت چڑھایا۔ ماں کے پیٹ میں یہ سب کام ہورہا ہے، مگر ماں بےخبر ہے کہ وہ نطفہ کب لوتھڑا بنا، کب اس میں ہڈیاں بنیں، کب ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا گیا اور کب آنکھ، ناک، کان بنائے گئے اور کب ان کے اندر دیکھنےاور سونگھنےوسننے کے خزانے رکھے گئے۔ ماں باپ کی یہی بے خبری خود دلیل ہے کہ ماں باپ خالق نہیں ہیں۔ بھلا کیا وہ خالق ہوسکتا ہے جو اپنی مخلوق ہی سے بے خبر اور جاہل ہو؟ ماں باپ کو اتنی بھی خبر نہیں ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی؟ کتنی بڑ ی نشانی وحدانیت کی خود انسان کی پیدایش میں موجود ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۷﴾ ؎ ------------------------------