معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہیں، کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے اس کو لایعنی نہیں پیدا کیا، ہم آپ کو منزّہ سمجھتے ہیں، سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجیے۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’عبث نہیں بنایا ‘‘ یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں،یعنی اس عالم میں اعمال کی دوسرے عالم یعنی عالمِ آخرت میں باز پُرس ہوگی۔حضرات صحابہکی شانِ عبودیّت ان آیات میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شانِ عبدیت اور شانِ غلامی کا مقام دکھایا گیا ہے کہ اے لوگو! دیکھ لو ہمارے پہچاننے والوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ کثرتِ ذکر اور فکر کے باوجود ان کو مقبولیت کا ذرا بھی گمان نہیں ہوتا۔ میری عظمت و کبریائی پیشِ نظر ہے، ہیبتِ حق سے دبے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کہ یہ کثرتِ ذکر اور فکر ان کو ناز اور غرور میں مبتلا کردے۔ ہماری کبریائی اور اپنی غلامی اس طرح ان کے پیشِ نظر ہے کہ اس قدر عبادت اور کثرتِ ذکر اور فکر کے باوجود اپنے کو جہنم کے قابل سمجھ کر عذاب ِ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں۔ عارفین کی یہی شان ہوتی ہے کہ کام بھی کرتے رہتے ہیں اور ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس عبدیت سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ وہ بڑا جاہل عابد ہے جو عبادت کرکے اپنے کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس تکبّر کی نحوست سے ساری محنت عبادت کی اکارت ہوجاتی ہے ؎ خواجہ پندارد کہ دارد حاصلے حاصلِ خواجہ بجز پندار نیست خواجہ سمجھتا ہے کہ مجھے کچھ حاصل ہوگیا اور حال یہ ہے کہ خواجہ کو کچھ حاصل نہ ہوا بجز تکبّر اور نخوت کے۔عابدِ مغرور کی مثال اس بے سمجھ مغرور عابد کی مثال اس بے وقوف چمار کی سی ہے جو کسی شاہی محل