معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تنخواہ دار سے بھید کی باتیں نہیں کی جاتیں، مقرّب سے کی جاتی ہیں۔ مقرّب رازداں اور رازدارِ سلطنت ہوتا ہے، حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ہاں و ہاں ایں دلق پوشانِ من اند صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند ہاں ہاں!یہ گدڑی پوش میرے خاص بندے ہیں، لاکھوں ا نسانوں میں ان کا ایک تن میرے تعلقِ خاص کی برکت سے ایک امتیازی شان رکھتا ہے۔ سچے عالم تو اشرافِ نفس سے بھی بچتے ہیں،کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو چیز اشرافِ نفس یعنی انتظارِ نفس کے بعد ملے اللہ اس میں برکت نہ دے۔اشرافِ نفس کی تعریف اشرافِ نفس کی حقیقت ہمارے حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ کسی کی چیز پر نظر کا اس طرح گڑ جانا کہ اس کے نہ ملنے پر دل میں ناگواری پیدا ہو،اور اگر دل راغب ہوا لیکن اس کے نہ ملنے پر کوئی ناگواری نہ ہوئی تو یہ اشرافِ نفس نہیں ہے۔ بزرگوں نے ایسی چیزوں سے سخت اہتمام کے ساتھ پرہیز کیا ہے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا جس چیز میں شامل ہو وہ ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔ایک بزرگ کی حکایت ایک بزرگ کا واقعہ یادآیا۔وہ ایک روز فاقے سے تھے، چہرہ متغیر ہورہا تھا، ایک شاگرد سبق پڑھنے کے لیے حاضر ہوئے، چہرے کا رنگ دیکھ کر سمجھ گئے، عذر کردیا کہ آج سبق نہ پڑھوں گا اور استاد کے لیے کھانا لینے کے لیے واپس ہوئے۔ ان بزرگ کے دل میں انتظار پیدا ہوگیا کہ یہ میرے لیے کھانا لائے گا، چناں چہ شاگرد جب کھانا لے کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ بھائی! میں اس کھانے کو نہ کھاؤں گا، کیوں کہ مجھے انتظارِ نفس ہوگیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔ شاگرد بہت فہیم تھے، فوراً کھانا لے کر نظر سے غائب ہوگئے، اور چند منٹ کے بعد پھر کھانالے کر حاضر