معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حُبُّ الدُّنْیَارَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ دنیا کی محبت تمام معاصی کی جڑ ہے۔ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کی محبت سے سخت پرہیز کا حکم فرمایا ہے اور مسافرانہ زندگی کے بعد أَوْعَابِرُسَبِیْلٍ فرمایا ہے۔یہاں اَوْ معنیٰ میں بَلْ کے ہے، بَلْ ترقی کے لیے آتا ہے، یعنی کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ میں جو تعلیم دی گئی تھی کہ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو کہ گویا تم ایک مسافر ہو، تو یہ ابتدائی درجہ ہے،جب اس درجے کا رسوخ ہوجائے تو اور ترقی کرو، اور اس طرح رہو کہ جیسے کوئی عابر ہوتا ہے، یعنی عبور کرنے والا۔ مسافر تو کہیں کسی وقت ٹھہر کر آرام بھی کرلیتا ہے اور عابر عبور کے درجے میں کہیں ٹھہرتا بھی نہیں ہے۔ وَعُدَّنَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ الْقُبُوْرِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’ اور اپنے نفس کو اہلِ قبور میں سے شمار کرو۔‘‘ یعنی جس طرح مُردہ دنیا سے بےتعلق رہتا ہےاسی طرح تم زندگی میں اپنے دل کو تمام فانی تعلقات سے خالی کرو اور دل میں صرف ایک ذاتِ پاک کا تعلق رکھو، یعنی دنیا میں تمام تعلقات پر اللہ کی محبت کو غالب کرلو۔ایک اعتراض اور اس کا جواب اب کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ دنیا کی محبت نہ ہوگی تو دنیا حاصل کیسے ہوگی اور مسلمان دوسری قوموں کے مقابلے میں روز بروز گھٹتا چلا جاوے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو دنیا کمانا ہے اور ایک دنیا کی محبت ہے۔ کسبِ دنیا جائز ہے حُبِّ دنیا جائز نہیں۔ کشتی پانی کی محتاج ضرور ہے لیکن اسی وقت تک یہ پانی کشتی کے لیے معین اور مفید ہے جب تک کہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہو، کشتی کے اندر پانی کا داخل ہوجانا کشتی کی ہلاکت اور تباہی کا سبب ہے ؎ آب در کشتی ہلاکِ کشتی است آب اندر زیرِ کشتی پشتی است