معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
’’اے اللہ! ہمارے دلوں کے تالوں کو کھول دیجیے۔‘‘اب یہ طالب خود بھی اپنے نفس کو ہر سوراخ سے دیکھ لیتا ہے اور ریا و تکبّر کے اثر کو اپنے لب و لہجے میں اپنی چال میں نشست و برخاست میں پہچان لیتا ہے،اور ہر وقت اپنے کو تراش و خراش کا محتاج پاتا ہے، اور مرتے دم تک اس نگرانی سے فرصت نہیں پاتا ؎ اندریں رہ می تراش و می خراش تا دمے آخر دمے فارغ مباش اس مقام پر عارف جب نورِ بصیرت سے اپنے نفس کو مثل سانپ کے ہر سوراخ تن سے سر نکالتے ہوئے مشاہدہ کرتا ہے تو بے سا ختہ بزبانِ حال کہہ اٹھتا ہے ؎عارف کی مناجات نالہ کردم کہ تو علّام الغیوب زیرِ سنگِ مکر بد ما را مکوب اے علاّم الغیوب! میں تجھ سے اپنے نفسِ نافرجام کا نالہ کرتا ہوں کہ اس مکرِ بد کے پتھر کے نیچے مجھے کوٹنے سے پناہ دیجیے۔ دستِ ماچو پائے ما را می خورد بے امانِ تو کسے جاں کے برد جب ہمارا ہاتھ ہی ہمارے پیرکو کھائے لیتا ہے تو آپ کی امان کے بغیر کوئی جان کو محفوظ کب لے جاسکتا ہے ؎ اے خدا آں کن کہ از تو می سزد کہ ز ہر سوراخ مارم می گزد اے خد! وہ معاملہ فرمائیے جو آپ کے لائق ہے، یعنی عنایتِ کاملہ، کیوں کہ ہر سوراخ سے میرے نفس کا سانپ مجھے ڈس رہا ہے۔