معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عارفاں زانند دائم آمنوں کہ گزر کردند از دریائے خوں امنِ شاں از عینِ خوف آمد پدید لا جرم باشند ہر دم در مزید عارفین اسی سبب سے ہمیشہ بے خوف ہیں کہ وہ دریائے خون سے گزرچکے ہیں۔دریائے خون سے مراد ان کے مجاہداتِ نفس ہیں جس کو ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ ؎ مے یہ ملی نہیں ہے یوں دل اور جگر ہوئے ہیں خوں کیوں میں کسی کو مفت دوں مے مری مفت کی نہیں (خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ) ان کا امن عینِ خوف سے ظاہر ہوا (یعنی خشیتِ حق سے) اس لیے وہ ہر دم لطف اور امید کی ترقی ہی میں رہتے ہیں۔ عجیب تصرّف اور عجیب قدرت ہے کہ خوف میں امید کو رکھ دیا ہے، حالاں کہ دونوں متضاد امر ہیں۔حق تعالیٰ کے تصرّفاتِ عجیبہ ان ہی تصرّفاتِ عجیبہ کے سلسلے میں مولانا نے یہاں ایک عجیب اور مفید بات بیان فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو کہ ؎ گمراہی را منہجِ ایمان کند کژروی را مقصدِ احساں کند وہ بعض اوقات گمراہی کو طریق ایمان کا کردیتے ہیں اور اخلاص سبب کجروی کا ہوجاتا ہے، اس طرح سے کہ اگر گمراہی مثلاً سبب ہوئی کسی مقبول شخص کے ایذا پہنچانے کے