معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مولانا فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ ایسے صاحبِ قدرت ہیں کہ اپنی قدرتِ قاہرہ سے اگر چاہیں تو آگ کو پانی کردیں اور اگر چاہیں تو پانی آگ ہوجائے (جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے نمرود کی آگ کو آپ نے اپنے حکم قہری تکوینی سے گلزار فرمادیا اور فرعونیوں کے لیے دریائے نیل کو دریائے خون کردیا) چناں چہ دوستوں کے لیے دریائے نیل میں بارہ راستے خشکی کے پیدا فرمادیے، بس حکم ہوگیا کہ اے پانی! تو پتھر ہوکر خشک راستہ بن جا، بس بن گیا، پھر جب فرعون مع اپنے لشکر کے ان راستوں میں داخل ہوا کہ پار ہوکر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے متبعین کا تعاقب کروں، تو حکم ہوگیا اے پتھر! اب پھر پانی ہوجا، بس وہ سب غرقِ آب ہوگئے۔ اسی کا نام قدرتِ قاہرہ ہے۔ قہر کا ترجمہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے غلبۂ قدرت سے کیا ہے اور آپ کے اس نوع کے تصّرفات تو محسوساتِ خارجیہ میں ہوتے ہی رہتے ہیں اس کے علاوہ ہماری باطنی کیفیات مثل غم و خوشی وغیرہ جو محسوساتِ باطنیہ سے ہیں، وہ ہر لحظہ آپ کے تصرّفاتِ تکوینیہّ کے تابع ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنی قدرتِ کاملہ سے ہمارے عینِ غم کو خوشی سے تبدیل فرمادیں اور جس خلافِ طبع امر کو ہم اپنے لیے اپنے پیر کی بیڑی سمجھتے ہیں وہی عین آزادی ہوجائے۔ وَ یَفۡعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ؎اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔اِنَّ اللہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ؎ اور حکم کردیتا ہے اس بات کا جس کا ارادہ کرتاہے۔ اللہ والے اسباب کے پردے میں مسبب الاسباب کو پہچان لیتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس نورِ معرفت سے نورانی بصیرت ہوتی ہے، جس کو باطنی نگاہ کہتے ہیں اور دوسرے اہلِ بصارت تو ہوتے ہیں مگر بصیرت سے محروم ہوتے ہیں۔چناں چہ کافروں کے متعلق حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ------------------------------