معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
بس یہی دوسرا طریقہ طریقِ عشق ہے اور پہلا طریقہ طریقِ زہد ہے۔قلب میں جس قدر اخلاقِ رذیلہ اور علائقِ فانیہ اپنی جڑ پکڑے ہوئے ہیں ان کو ایک ایک کرکے الگ کرنے میں ایک عمر چاہیے اور اس زمانے میں یوں ہی اوسطاً لوگوں کی عمر زیادہ سے زیادہ صرف ساٹھ یا ستّر کی ہوتی ہے اور اللہ کی محبت کی آگ تمام غیرِ حق کے تعلقات کو سوختہ کردیتی ہے، اس کو ایک بزرگ فرماتے ہیں ؎ صنمارہِ قلندر سزا وار بمن نمائی کہ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی صنم سے مراد شیخِ کامل ہے، یعنی اے محبوب شیخ! اگر میرے لیے آپ مناسب سمجھیں تو طریقِ عشق سے میرا راستہ قطع کرادیجیے، کیوں کہ طریقِ زہد کا راستہ بہت لمبا ہے۔فرق سیرِ زاہد و سیرِ عارف اسی کو حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ سیرِ زاہد ہر مہے یک روزہ را سیرِ عارف ہر دمے تاتختِ شاہ کہ زاہد طریقِ زہد سے ایک ماہ میں ایک روز کی مسافت طے کرتا ہے اور عارف کی سیر ہر سانس میں تختِ شاہ تک ہوتی رہتی ہے۔مذاقِ قلندری کی تحقیق حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ’’رہِ قلندر‘‘ ایک خاص اصطلاح ہے،’’قلندریہ‘‘ ایک طبقہ اولیائے اللہ میں ہوتا ہے جو ایک خاص مذاق اور ایک مخصوص رنگِ نسبت سے مشرف ہوتا ہے، جن اولیائے اللہ کو ہر وقت حق تعالیٰ شانہٗ کے ساتھ ایک خاص کیفیتِ استحضاری نصیب ہوجاتی ہے اور ان کے سر پر ہر وقت نسبت کا گویا ایک پہاڑ رکھا ہوتا ہے ایسے حضرات اگرچہ بظاہر تکثیرِ نوافِل اور تکثیرِ