معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اسی سبب سے حق تعالیٰ نے اس عالمِ خاک کا لقب دارالغرور فرمایا ہے، ارشاد فرماتے ہیں: وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۱۸۵﴾؎ اور دنیاوی زندگانی محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔ اور سورۂ لقمان میں ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ وَعۡدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝوَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللہِ الۡغَرُوۡرُ؎ یقیناً اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچاہے، سو تم کو دنیا وی زندگانی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ تم کو دھوکے باز شیطان اللہ سے دھوکے میں ڈال دے۔ اسی کو مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس عالمِ خاک کا لقب اسی لیے دارالغرور فرمایا ہے کہ شیطان جو ہر وقت خواہشاتِ نفسانیہ میں تم کو بھلاوے دے رہا تھا وہ انتقال کے وقت تمہاری یاری اور اعانت سے مدد کا ہاتھ کھینچ لے گا اور مرنے سے پہلے ہر وقت تیرے آگے پیچھے تیری مدد کے لیے بڑے بڑے وعدے کیا کرتا تھا۔موت کے وقت انسان کی بے کسی الغرض موت کے وقت ہر قسم کی دنیاوی بہار ختم ہوجاتی ہے بجز اس بہار کے جس نے روح میں حق تعالیٰ کی یاد اور اطاعت سے بہارِ لازوال پیدا کرلی تھی۔ موت کے وقت جہاں میں کسی بہار سے مدد نہیں مل سکتی، کیوں کہ موت کے وقت حسین سے حسین عورت سامنے کھڑی ہے لیکن آنکھیں دیکھنےسے مجبور ہیں، ناک پر گلاب کا پھول رکھا ہوا ہے مگر خوشبو سونگھنے سے مجبور ہے، محبوب ترین دوست کان میں باتیں کررہا ہے لیکن کان اب سننے سے مجبور ہے، پلاؤ قورمے کا لقمہ زبان پر رکھا ہوا ہے لیکن زبان اس کی لذت حاصل کرنے سے مجبور ہے،حسین ترین بیوی آکر گلے سے لگ جائے لیکن جسم احساسِ لذت سے قا صر ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر ہے ؎ ------------------------------