معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سر میداں کفن بردوش دارم اور فرمایا کہ جب یہ مصرعہ اجودھیا کی جنگ میں حضرت مولانا امیر علی شاہ صاحب پڑھتے تھے تو آسمان سے آواز آتی تھی ؎ بیا مظلوم اکنوں در کنارمحضرتِ والا کا لباس جب احقر حضرتِ والا کی خدمت میں حاضر ہوا تو عمر شریف تقریباً ستّر برس تھی،اس وقت سے میں نے حضرت والا کو ہمیشہ کُرتااور تہبند میں دیکھاہے۔کسی سال دو ایک روز کے لیے شاید پاجامہ بھی پہنا ہو اور اکثر حضرتِ والا کے پاس ایک ہی کُرتا رہا ہے، جس کو حضرتِ والا کے بعض خدام دھو دھو کر پہناتے رہے ہیں۔ حضرتِ والا کو یوں تو حق تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح کی فراغت ہے، لیکن ہمیشہ صرف ایک چار پائی اور اس پر بستر اور سرہانے ایک لنگی اور تسبیح کے علاوہ کوئی سامان آپ کے پاس نہیں دیکھا گیا، نہ کوئی صندوق دیکھا گیا، نہ کوئی اور سامان دیکھا گیا۔ ہفتے کے دن قینچی اور آئینہ احقر سے طلب فرماکر خود ہی حجامت درست فرمالیتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ حجام کے لباس کی بُو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن یہ ہندوستان کے دیہاتی حجاموں کے متعلق بات ہے۔ حضرتِ والا نے کبھی دھوبی کے یہاں کا دھویا ہوا کپڑا استعمال نہیں فرمایا، ہمیشہ گھر میں خاص اہتمام سے کپڑے دھلواتے ہیں۔ اگر ضرورتاً کبھی دھوبی کے یہاں کپڑا دھونے کے لیے دیا گیا تو بعد میں اس کو پھر گھر میں دھلواکر تب استعمال فرمایا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا:’’میں اس عمل پر فتویٰ نہیں دیتا ہوں،حق تعالیٰ سے میراخاص معاملہ یہ ہے کہ میں اگر اس کے خلاف کرتا ہوں تو میری زبان ذکر میں بند ہوجاتی ہے، اس لیے میں اپنے نفس کے لیے یہ اہتمام کرتا ہوں۔‘‘ حضرتِ والا کے کُرتےکے بٹن ہمیشہ کھلے ہوئے دیکھے ہیں اور اس کا مسنون ہونا ثابت ہے۔ حضرتِ والا کی اس سادگی اور چاکِ گریبانی کو دیکھ کر بے ساختہ اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر یاد آتا ہے ؎