معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اشکال کا یہی حل ہے کہ چوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے شایانِ شان نماز کا حق بندوں سے ادا نہیں ہوسکتا اس لیے نماز کے بعد بندہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ! آپ کی کبریائی کے مقابلے میں میری غلامی میں جو نقصان اور قصور ہوا ہے اس کی معافی چاہتا ہوں۔ اور دنیا میں اس کا نمونہ بھی موجود ہے کہ جب کسی معزز مہمان کو رخصت کرتے ہیں تو باوجود صد احترام اور آدابِ مہمان نوازی بجا لانے کے نہایت شرمندگی سے نیاز مندانہ چہرہ بناکر کہا کرتے ہیں کہ کیا بتاؤں آپ کی خاطر کا حق ادا نہ ہوسکا، کوئی تکلیف ہوئی ہو تو معاف فرمائیے گا۔ جب ایک بندہ بندوں کے حق میں کامل طور پر مطمئن نہیں ہوتا ہے کہ نہ معلوم کون سی بات مہمان کو ناگوار ہوئی ہو تو کہاں بندہ اور کہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک! چراغ مُردہ کجا شمعِ آفتاب کجا پس عارفین ہر عبادت کے بعد اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں کہ اے اللہ! جو کچھ مجھ سے اس عبادت میں کوتاہی ہوئی ہے معاف فرمادیجیے ،وہ جاہل عابد ہوتا ہے جو عبادت کرکے اپنے کو کچھ سمجھنے لگتا ہے۔حضرت نانوتویکی شانِ فنائیت حضرت مولانا محمّد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اتنے بڑے عالم تھے اور درویشِ کامل تھے، مگر ایسی سادگی تھی کہ اجنبی شخص دیکھ کر یہ بھی نہیں سمجھ سکتا تھاکہ مولانا کچھ پڑھے لکھے ہوں گے۔ اکثر کُرتا لُنگی میں رہتے تھے، کسی نے حضرت حاجی صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت مولانا قاسم صاحب نے اپنے کو بہت مٹادیا ہے، تو فرمایا کہ ابھی کیا مٹایا ہے؟ اللہ اکبر! نہ جانے فنائیت کے کس مقام پر مولانا کو حضرت حاجی صاحب دیکھنا چاہتے تھے۔اخبات کی تعریف اللہ تعالیٰ کی عظمت سے دب جانے کا نام اخبات ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: