معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ما نبودیم و تقاضا مَا نبود لطفِ تو ناگفتۂ ما می شنود اللہ تعالیٰ کے احسانات کو تو ہم شمار ہی نہیں کرسکتے۔عدمِ قدرَت برا حصَائےنعم الٰہیہ ارشاد فرماتے ہیں:وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللہِ لَا تُحۡصُوۡہَا؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم ان کا شمار نہیں کرسکتے ہواور ارشاد ہوتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا؎ اس لَکُمۡ میں جو لام ہے وہ نفع کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور مَا فِی الۡاَرۡضِ میں لفظِ مَا تمام روئے زمین کی نعمتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کے بعد جَمِیۡعًاسے اور تاکید فرمادی۔(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اور وہ ذاتِ پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے فائدے کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے سب کا سب) خواہ کسی قسم کا فائدہ ہو، کھانے کا ، پینے کا، پہننے کا، نگاہ کو تازگی بخشنے کا، نفس یا روح کو حظ دینے کا، کسی چیز کو دیکھ کر توحید کے علمِ صحیح حاصل ہوجانے کا۔ایک شبہ اور اس کا جواب اور اس پر کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ پھر سب چیزیں حلال ہونی چاہئیں، کیوں کہ سب میں کچھ نہ کچھ تو فائدہ ہے ہی، بات یہ ہے کہ صرف کوئی سا فائدہ ہونے سے اس چیز کا قابلِ استعمال ہونا لازم نہیں آتا، کیا سمیات قاتلہ میں بھی کچھ نہ کچھ نفع نہیں ہوتا، پھر اطباء ان کے استعمال سے کیوں روکتے ہیں؟ فقط اسی واسطے کہ گو اس میں نفع ضرور ہے، مگر غالب ضرر ہے، اسی طرح محرماتِ شرعیہ کو سمجھیے کہ گو ان میں کچھ نفع بھی سہی ------------------------------