معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہے۔ اس میں مبتدامؤخر خبر مقدم ہے، یعنی اگر دریچۂ تاباں از آفتاب کو دیکھ لیا تو گویا آفتاب کو دیکھ لیا ؎ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ احمد است دیدنِ او دیدنِ خالق شد است مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ کے مصداق احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں، جس سے عینیتِ مصطلحہ معلوم ہوئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنامِنْ وجہٍ خالق کا دیکھنا ہے۔اطاعتِ رسولﷺ عین اطاعتِ حق ہے قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللہَ ۚ؎ جس نے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے بےشک اللہ کی اطاعت کی۔ خلاصہ یہ کہ جو بندۂ مقبول حق تعالیٰ کے نور سے منوّر ہے اور اس نورِ حقیقی سے تعلق رکھتا ہے اس کا دیکھ لینا بعض اعتبارات سے حضرتِ حق کا دیکھ لینا ہے، کیوں کہ ہر مَظہر ظاہر کے لیے مُظہر ہوتا ہے، اور یہ حکم تمام انبیاء علیہم السّلام کے لیے عام ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کو اس عموم کے ساتھ ایک خصوصی شرف حاصل ہے، وہ یہ کہ تمام خلائق کے لیے آپ خود واسطۂ فیضِ الٰہی ہیں، آپ کے لیے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ؎ حق تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا ہے۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرکز الخلائق بھی ہیں اور مرکز ِنبوت و رسالت بھی ہیں، اسی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین فرمایا ہے، کیوں کہ واسطۂ رحمت وہی ہوسکتا ہے جو سب سے افضل و اقرب واحبّ ہو ۔ ------------------------------