معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تھا، یہ بالکل غلط مشہور ہے۔ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تحقیق مثنوی شریف کے ایک شعر سے اخذ فرمائی ہے، مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ چوں قلم در دست غدارے رسید لا جرم منصور بر دارے رسید بات یہ ہے کہ وزیر کو حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ سے عداوت ہوگئی تھی، اس نے ایک فرضی استفتاء علماء کے پاس بھیجا چوں کہ علماء کے ذمے تحقیقِ حال نہیں ہے ،جو کچھ اس استفتاء پر عداوت میں مضمون لکھ دیا تھا اس کے مطابق علماء نے فتویٰ دے دیا، علماء کو کیا معلوم کہ کس کے لیے یہ استفتاء طلب کیا گیا تھا۔اللہ والوں کی پہچان کی چوتھی صفت الغرض وہ باخبر بندے جن کی صفات کا ذکر چل رہا تھا ان کی اب ایک خاص شان حق تعالیٰ بیان فرماتے ہیں، جس کی قدر اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پہلے کی بیان فرمودہ ان کی صفتوں کا استحضار ہو، اس لیے اس استحضار کی غرض سے اجمالاً ان صفات کا پھر ذکر کرتا ہوں۔ یعنی یہ باخبر بندے جب زمین پر چلتے ہیں تو اپنی چال میں نگاہ رکھتے ہیں کہ وہ ہون اور وہ ذلت اور عبودیت جو میاں نے ہمارے لیے پسند فرمائی ہے وہ ہماری چال میں موجود ہے یا نفس کے حوالے ہوگئی۔ اس طرح جب ان کو کوئی جاہل چھیڑتا ہے تو وہ سلامتی کے ساتھ جلدی سے رفعِ شر کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، تاکہ ہون کی نعمت جو اپنی چال میں لیے ہوئے ہیں کہیں جاہل کی چھیڑ کے حوالے نہ ہوجائے۔ بندوں کےساتھ معاملات میں ان کی شانِ عبودیت کایہ عالم ہے،اورحق تعالیٰ کے ساتھ تو پھر کیا کہنا، پھر جب بندوں کے ساتھ اُن کی شانِ عبدیت کا یہ عالم ہے جو کہ معین فی المقصود ہے ، تو اصل مقصودیعنی عبدیت مع الحق میں ان کی سرگرمی کو کیا پوچھتے ہو، رات کی رات سجدے اور قیام میں گزار دیتے ہیں: