معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سے اس قدر منفعل ہوتی ہیں کہ ان کی شکستگی اور ندامت کو دیکھ کر آقا کا کرم جوش میں آجاتا ہے اور آقا خود سمجھانے لگتا ہے کہ جاؤ بے فکر رہو، خوب دل لگاکر کام کرو، وہی غم لیے نہ پڑے رہو، انسان ہی سے غلطی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مقربانِ بارگاہِ حق اپنی معمولی چُوک سے اس قدر منفعل اور شکستہ ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگ کبائر کے ارتکاب سے بھی ندامت کے اس رفیع مقام پر نہیں پہنچتے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مقربِ بارگاہ کے سامنے حق تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اپنی ذلت و عبدیت ہوتی ہے، اسی امر کے پیش نظر بزرگوں نے لکھا ہے کہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ۔اور صوفیا کا قول مشہور ہے ’’مقرباں رابیش بود حیرانی۔‘‘بڑوں کی معمولی چُوک کو بھی اہمیت دی جاتی ہے بڑوں کی معمولی چُوک کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، جیسا کہ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ وَصْلَتِ عامہ حجابِ خاص داں طاعتِ عامہ گناہِ خاصگاںعوام کا مقامِ قرب خواص کے لیے حجاب ہوتا ہے حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عوام کا مقامِ قرب خواص کے لیے مقامِ حجاب ہے، اور عوام کی عبادت خواص کے لیے معصیت ہے۔ وصال کا ترجمہ قرب سے اس لیے کیا کہ ؎ قربِ او ر ا و صال می گویند وصلِ او ر ا محَال می گویند ’’ان کے قرب کو مجازاً وصال کہتے ہیں اور ان کے وصل بالمعنیٰ الحقیقی کو محال کہتے ہیں۔‘‘