معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
غور وفکر سے منع فرمایا ہے (کیوں کہ عقلِ محدود میں غیر محدود ذات کا ادراک ناممکن اور محال ہے) اور فرمایا کہ تَفَکَّرُوْافِیْ اٰلَاءِ اللہِ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں فکر کیا کرو۔اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے تمام نشانیاں زمین میں موجود ہیں، ان ہی نشانیوں سے اللہ تعالیٰ کو پہچاننا چاہیے۔ کسی بدوی سے کسی نے دریافت کیا کہ تو خدا کو کیسے پہچانتا ہے؟ اس دیہاتی عرب نے جواب دیا کہاَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ وَاٰثَارُالْاَقْدَامِ عَلَی الْمَسِیْرِ فَسَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ وَّاَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ کَیْفَ لَاتَدُلُّ عَلَی اللَّطِیْفِ الْخَبِیْرِ جس طرح اونٹ کی مینگنیاں گواہی دیتی ہیں کہ اس راہ سے اونٹ گزرا ہے اور قدموں کے نشانات چلے ہوئے راستوں کا پتا بتاتے ہیں، پس آسمان برجوں والا اور زمین کشادہ راستوں والی اس ذاتِ پاک لطیف و خبیر کے وجودِ پاک پر کیوں کر دلالت نہ کریں گے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے ایک بدوی کا اور قصّہ یاد پڑا،جس وقت اس بدوی نے یہ آیت سُنی: فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ ﴿٪۲۳﴾؎ ’تو قسم ہے آسمان اور زمین کے پروردگار کی کہ وہ روزِ جزا برحق ہے اور ایسا یقینی ہے جیسا تم باتیں کررہے ہو اورکبھی اس میں شک نہیں ہوتا اسی طرح اس کو یقینی سمجھو۔ پس اس آیت کو سنتے ہی اس بدوی نے چیخ ماری اور غلبۂ حال میں کہا: وہ کون ظالم تھا جس نے میرے ربّ سے ایسی قسم کھلائی!سورۂ فاتحہ سے استدلالِ وحدانیت سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنی وحدانیت اور الوہیت کو بیان فرمانے ------------------------------