معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لرزہ براندام اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور شہزادوں کی تحقیر کا تو کیا وسوسہ آتا خود اپنی خیر مناتا رہتا ہے کہ بادشاہ کی نظر کہیں بدلی تو نہ جانے میرا کیا حال ہوگا ۔ حضرت فرماتے تھے کہ کسی کو نصیحت کرنا اس وقت میں حرام ہے جس وقت کہ مخاطب کو حقیر سمجھ کر نصیحت کی جائے، عینِ اصلاح اور نصیحت کے وقت اپنے کو کمتر اور مخاطب کو اپنے سے افضل سمجھنایہ ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے ؎ برکفے جامِ شریعت برکفے سندانِ عشق ہر ہوسنا کے نداند جام و سنداں باختن ایک ہتھیلی پر جامِ شریعت ہے اور دوسری ہتھیلی پر عشق کا ہتھوڑا ہے ،ہر ہوس والا شیشے کا پیالہ اور لوہے کا ہتھوڑا کھیلنا کب جانتا ہے۔ اصلاح کا منصب بڑا نازک منصب ہے۔حضرت تھانوی کا ایک واقعہ ایک بار حضرت رحمۃ اللہ علیہ سڑک سے بوقتِ صبح گزر رہے تھے، سرکاری بھنگی سڑک پر جھاڑو لگارہا تھا، ایک عالم اور مخصوص رفیق نے آگے بڑھ کر مہتر سے کہا کہ بھائی! ذرا سی دیر کو ملتوی کردو تاکہ ہمارے حضرت گرد سے بچ جاویں، حضرتِ والا نے سُن لیا اور فرمایا کہ آپ کو کیا حق تھا کہ اس کے سرکاری کام میں دخل دیں، وہ اپنی ملازمت کا حق ادا کررہا ہے، کیا آپ نے مجھ کو فرعون سمجھ لیا ہے؟ اللہ اکبر! عجیب عبدیت کی شان تھی۔ ایک طالب نے خط میں باطنی حالت اور فقہی مسائل کا استفسار دونوں جمع کردیے، اس پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے ان کو یہ جواب لکھا کہ آپ ایک خط میں فقہی مسائل کو اور احوالِ باطنی کو جمع نہ کیا کریں اور فرمایا کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ احوالِ باطنی کو فقہی مسائل کے ساتھ جمع نہ کریں، مسائلِ فقہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین ہیں ان کا ادب اسی امر کو مقتضِی تھا۔ بڑوں سے ان کی سمجھ اور فہم کے اعتبار سے حق تعالیٰ ان کے ساتھ معاملہ