معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآ دُّوۡنَ مَنۡ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ ؎ حق تعالیٰ شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں:جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخص سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف ہیں، گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو، ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان کو اپنے فیض سے قوت دی ہے۔ ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد فدائے یک تنِ بیگانہ کا شنا باشد یعنی ہزار اپنا ہو لیکن اگر خدا سے بیگانہ ہے تو اس سے کیا محبت ہوسکتی ہے، اور ایک بیگانہ ہو لیکن اللہ والا ہو تو میں اس پر قربان ہوں اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ مہرِ پا کاں درمیانِ جاں نشاں دل مدہ الاّ بمہرِ دل خوشاں مولانا فرماتے ہیں کہ پاک بندوں کی محبت کو جان میں پیوست کرلو اور دل ہر گز کسی کو نہ دو، مگر ان کو جن کے دل اللہ کی محبت سے اچھے ہوگئے ہیں، اِلَّا مَنۡ اَتَی اللہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ؎ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؕمیں حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایسی جامع تعریف موجود ہے جو ہر صحابی کے تمام کارنامۂ محبت کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔صحابہ کرام کی شدّتِ محبّت کا دوسرارُخ محبتِ حق میں ان کی سرگرمی کی ایک شان تو وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی ------------------------------